امام اور امامت کا مقام
خلاصہ: امام وہ عظیم ہستی ہے جس کے ذریعہ نماز، زکات، روزہ، حج اور جہاد مکمل ہوتے ہیں، لہذا جو امام برحق کو تسلیم نہیں کرتا اس کے یہ اعمال بھی مکمل نہیں ہیں۔
خلاصہ: امام کی مثال طلوع کرتے ہوئے سورج کی طرح ہے، سورج طلوع کی حالت میں سب چیزوں کو روشن کردیتا ہے، سورج کی بلندی اس قدر ہے کہ اس تک کوئی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا کہ اس میں تبدیلی لاسکے اور نہ نگاہیں اسے دیکھ سکتی ہیں کہ اس کی حقیقت کا ادراک کرسکیں، امام کی مثال بھی یہی ہے۔
خلاصہ: امام چونکہ معصوم ہے تو اللہ تعالی کے حلال و حرام کو اسی طرح بیان اور جاری کرتا ہے جیسا اللہ نے حکم دیا ہے اور اللہ کی حدود کو جاری کرتا اور اللہ کے دین کی حفاظت کرتا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ کی طرف اچھے طریقہ سے بلاتا ہے۔
خلاصہ: دین چونکہ اللہ کی طرف سے ہے تو امام کو بھی اللہ کی طرف سے منصوب ہونا چاہیے تا کہ دین الہی کو زمین پر نافذ کرسکے، امام کیونکہ دین کے ہر مسئلہ سے آگاہ ہے تو دین کی باگ ڈور اللہ نے اسی کے ہاتھ میں دی ہے۔
خلاصہ: امامت کوئی عوامی مقام نہیں ہے جس کے لئے لوگ خود کسی کو منتخب کرلیں، بلکہ امامت اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت ہے، لہذا صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو امام بنائے۔ بنابریں لوگوں کا اس بارے میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یقیناً ان کا انتخاب غلط ہوگا جیسا کہ نسل انسانیت اپنے انتخاب کا نتیجہ ہر دور میں دیکھتی آرہی ہے جو سراسر ظلم و فساد ہے۔
خلاصہ: حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے ایک طویل حدیث میں امام اور امامت کے مقام کا تعارف کروایا ہے۔