خلاصہ: حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے مامون کی ولیعہدی کو قبول کیا تو مجبوری کی وجہ سے، ورنہ آپؑ کو بالکل پسند نہ تھا کہ اس سے اس منصب کو قبول کریں، اس کے مختلف دلائل پائے جاتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کو مامون نے جب ولیعہدی کے قبول کرنے پر مجبور کیا تو آپؑ نے مختلف طریقوں سے اس بات کو ثابت کیا کہ آپؑ کو مامون کی ولیعہدی قبول کرنا بالکل پسند نہیں ہے، ان میں سے چند دلائل مندرجہ ذیل ہیں:۱۔ آپؑ کی طرف جب مامون نے چند افراد کو بھیج کر دارالخلافت میں آپؑ کو آنے کی دعوت دی تو آپؑ نے انکار کردیا۔ آپؑ کا انکار اس قدر پختہ تھا کہ مامون کی طرف سے آپؑ کو قتل کی دھمکی دی گئی۔۲۔ آپؑ نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو دعائیہ کلمات بیان کیے ان میں اپنے اضطرار اور مجبوری کا اظہار کیا اور عہد اور ولایت کو اللہ سے متعلق سمجھا، آپؑ نے بارگاہ الہی میں عرض کیا: "اللَّهُمَّ لَا عَهْدَ إِلَّا عَهْدُكَ وَ لَا وَلَايَةَ لِي إِلَّا مِنْ قِبَلِك"، (عیون اخبار الرضا علیہ السلام)، ج۱، ص۱۹)، "بارالہا! تیرے عہد کے علاوہ کوئی عہد نہیں ہے اور تیری جانب سے ولایت کے علاوہ میرے لیے کوئی ولایت نہیں ہے"، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپؑ مامون کو ایسے منصب کا حقدار سمجھتے ہی نہیں تھے کہ وہ ولیعہدی، آپؑ کو دے سکے، ولایت جسے اللہ چاہے دے اور اللہ نے آپؑ کو ولایت دی ہوئی ہے۔۳۔ آپؑ نے جبری ولیعہدی کو قبول کرتے ہوئے مامون سے کئی شرطیں کیں: آپؑ کسی کو عزل و نصب نہیں کریں گے، کسی رسم اور سنت (رواج) کو نہیں بدلیں گے، خلافت کے کام میں دور دور سے اپنا نظریہ بیان کریں گے۔ اس کا مطلب کم ہی خلافت کے امور میں مداخلت کریں گے، تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپؑ ولیعہدی کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ منصب دار ہونے کے باوجود، منصب کو استعمال نہ کرنے کی شرطیں لگانے کا مطلب یہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام، شیخ صدوق، ناشرنشر جهان، تهران، 1378 ق)
Add new comment