خلافت
اللہ نے جو کچھ بھی پیغمبر اکرم(ص)کو سکھایا تھا ،وہ سب کا سب انھوں نے ابوالائمہ علی بن ابی طالب(ع)کو سونپ دیا اور ائمہ بھی انھی کے توسط سے علمِ نبوی کے وارث ہوئے۔ اس طرح سے وہ تمام علوم جن کے لوگ ضرورتمند تھے، حاصل ہوئے،بالکل ویسے ہی جیسے امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا اگر لوگ اس علمِ الٰہی کے خزانے کی قدر کرتے اور اس کی حرمت و تقدس کا خیال رکھتے تو آسمان و زمین کی برکتیں ان کی جھولیوں میں آگرتیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ آنحضور(ص) کی رحلت کے بعد ان کی قیمتی اور گراں بہایادگار کے ساتھ اچھابرتاؤ نہ کیا گیا اور اصل منبع سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل نہیں کی گئیں اور خود کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرا دیا گیا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل شدہ بعض روایات صرف حضرت علی (ع) کی امامت و ولایت سے مخصوص ہیں۔ در حقیقت بی بی زہرا نے حضرت علی (ع) سے لوگوں کے نا مناسب رویے کے علل و اسباب کو بیان کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایاہے کہ،ان حضرت کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں موجود بغض و کینہ انکی خلاف
اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے۔[1][تاریخ الاسلام، ذہبی] اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کہنا چاہا ہے کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہیئے جو ایک دنیوی امر ہے۔[2][ ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲، بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴]
خلاصہ: ظاہری خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے امامؑ کو سونپی ہوئی ذمہ داری ہے جو اس بات پر موقوف ہے کہ لوگ امامؑ سے بیعت کریں، ورنہ امامؑ سے ذمہ داری اٹھالی جاتی ہے۔
خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خلافت کے مسئلہ میں لوگوں کو سمجھایا، لیکن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور اللہ کے برحق خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کی۔
حضرت علی(ع) کے نزدیک ملک وبادشاہی جو حق کو قائم کرنے اورباطل کو زائل کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیاکی پست ترین چیزوں سے بھی زیادہ پست تھی، یہی سبب ہے حضرت علی(ع)کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں سے بھی کمتر تھی، جس میں سماج کے ستم زدہ اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکے، اسی تناظر میں مندرجہ ذیل مختصر توشتہ خود امیرالمؤمنین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت کیا تھی۔
خلاصہ: امامت کوئی عوامی مقام نہیں ہے جس کے لئے لوگ خود کسی کو منتخب کرلیں، بلکہ امامت اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت ہے، لہذا صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو امام بنائے۔ بنابریں لوگوں کا اس بارے میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یقیناً ان کا انتخاب غلط ہوگا جیسا کہ نسل انسانیت اپنے انتخاب کا نتیجہ ہر دور میں دیکھتی آرہی ہے جو سراسر ظلم و فساد ہے۔