دنیا
امام حسين علیه السّلام :اِنَّ النّاسَ عَبيدُ الدُّنْيا وَ الدِّينُ لَعْقٌ عَلى اَلْسِنَتِهِمْ؛حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ دنیا کے غلام بن چکے ہیں اور دین کی باتیں تو صرف زبان کا چٹخارہ بدلنے کے لئے ہیں۔[تحف العقول، ص 245]
خلاصہ: دنیا میں سفر کرنے اور آخرت کے سفر میں ایک اہم فرق پایا جاتا ہے، اسے اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے۔
وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ؛اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں[سورة العنكبوت ۶۴]
خلاصہ: انسان جتنا دنیا کے بارے میں سوچتا چلاجائے گا وہ اتنا ہی اسکی پستیوں میں گرفتار ہوتا چلاجائیگا۔
قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : مَا اَلدُّنْيَا فِي اَلْآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي اَلْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ(بحار الأنوار, ج 70 , ص 119) دنیا ،آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کہ کوئی شخص دریا میں انگلی ڈالے اور پھر دیکھے کہ انگلی کیا چیز لے کر واپس ہوئی۔ (یعنی پانی کا کتنا حصہ انگلی میں لگا)۔۔۔۔۔ہم دنیا میں مگن ہیں اور آخرت کی لگن اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں کہیں گم سی گئی ہے جب کہ ہماری منزل مقصود وہی ہے، اسی تناظر میں بطور تذکر مندرجہ ذیل مختصر تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ رب العزت ہم سب کی عاقبت بخیر فرمائے۔آمین
خلاصہ: حضرت عسیٰ(علیہ السلام) دنیا اور آخرت میں صاحبِ وجاہت اور مقربین بارگاہ الٰہی میں سے ہے۔
خلاصہ: انسان جتنا دنیا کے پیچھے دوڑیگا دنیا اسے اپنے پیچھے اتنا ہی دوڑائیگی،
خلاصہ:انسان تکبر سے دوری کی بناء پر خدا کی سب سے زیادہ اچھی مخلوق(اشرف المخلوقات) بن سکتا ہے۔