خلاصہ: دنیا میں سفر کرنے اور آخرت کے سفر میں ایک اہم فرق پایا جاتا ہے، اسے اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے۔
مارے سامنے ایسا راستہ ہے کہ اگر ہم انتہائی تیزی سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ کوشش کریں تو معلوم نہیں ہے کہ اس راستے کی کس حد تک پہنچ سکیں! لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ ہم جس مرحلہ تک بھی پہنچ جائیں، وہ مطلوب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر آدمی مقصد کی آخر تک نہ پہنچے تو کوئی فائدہ نہ ہو۔
عموماً دنیاوی سفر خاص طور پر اگر کسی بیابان یا دریا سے گزرنا ہو اور اگر آدمی مقصد تک نہ پہنچے تو اس کا سفر بے فائدہ ہوگا، لیکن معنوی سفر میں ایسا نہیں ہے، بلکہ جس مرحلہ کو انسان طے کرلے اس کا اسے فائدہ ہوگا، اگرچہ اس اعلیٰ مقصد سے اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، مگر درمیانی مراحل اور منازل بھی مطلوب ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی شخص کی ہمّت نہ ہوتی کہ اللہ کی عبادت کے راستے کو طے کرے۔ ہم کہاں اور ایسا طویل راستہ کہاں؟ جو باعث بنتا ہے کہ کمزور اوردرمیانے افراد بھی اس راستے پر گامزن ہوں، یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جہاں تک پہنچ جائیں، وہاں تک بھی مطلوب ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: نشریہ معرفت، ج۱۰۷، ص۳، اخلاق و عرفان اسلامی، استاد محمد تقی مصباح یزدی]
Add new comment