قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : مَا اَلدُّنْيَا فِي اَلْآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي اَلْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ(بحار الأنوار, ج 70 , ص 119) دنیا ،آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کہ کوئی شخص دریا میں انگلی ڈالے اور پھر دیکھے کہ انگلی کیا چیز لے کر واپس ہوئی۔ (یعنی پانی کا کتنا حصہ انگلی میں لگا)۔۔۔۔۔ہم دنیا میں مگن ہیں اور آخرت کی لگن اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں کہیں گم سی گئی ہے جب کہ ہماری منزل مقصود وہی ہے، اسی تناظر میں بطور تذکر مندرجہ ذیل مختصر تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ رب العزت ہم سب کی عاقبت بخیر فرمائے۔آمین
آج ہماری حالت یہ ہے کہ اپنے ’’دنیوی کل‘‘ (یعنی مستقبل ) کی سدھار کے لئےتو بہت غور وفکر کرتے ، اس کے لئے طرح طرح کی آسائشیں جمع کرنے کی ہر دم سعی کرتے، خوب بینک بیلنس بڑھا تے ، کاروبار چمکاتے اور آئندہ کی دنیوی راحتوں کے حصول کی خاطر نہ جانے کیا کیا منصوبے بناتے ہیں کہ کسی طرح ہمارا یہ دنیوی کل بہتر ہو جائے، ہمارا دنیوی مستقبل سنور جائے، لیکن افسوس!
ہم اپنے’’ اخروی کل‘‘(یعنی آخرت) کو سدھارنے کی فکر سے یکسر غافل اور اس کی تیاری کے معاملے میں بالکل کاہل ہیں ، حالانکہ صرف اس دنیوی کل کے سدھرنے کا انتظار کرنے والے نہ جانے کتنے نادان انسانوں کی آہِ حسرت، موت کی ہچکیوں سے ہم آغوش ہو جاتی ہے، اور وہ روشن مستقبل پاکر خوشیاں منانے کے بجائے اندھیری قبر میں اتر کر قعرِ افسوس میں جا پڑتے ہیں، فقط دنیوی زندگی سدھارنے کے تفکرات میں مستغرق ہوکر اسی کے لئےمصروفِ تَگ و دَو رہنا، اپنی آخرت کی بھلائی کے لئے فکر و عمل سے غفلت برتنا، سا بقہ اعمال پر اپنا احتساب کر تے ہوئے آئندہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا عزم نہ کرنا سراسر نقصان و خُسران ہے اور سمجھدار وہی ہے جس نے حساب آخرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود کو سدھارنے کیلئے اپنے نفس کاسختی سے مُحاسبہ کیا، گناہوں پرافسوس اور ان کے برے انجام کا خوف محسوس کیا۔
امیرالمؤمنین(ع):حَاسِبُوا نُفُوسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا۔اپنا حساب لیا کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب لیا جائے۔(عیون الحکم , ج 1 , ص 234)
Add new comment