پردہ
برسوں کی ارزو تھی کہ موقع ہاتھ ائے تو اپس میں گفتگو کریں اور خود کو تمھیں پہچانوائیں تاکہ ھم سے بہتر اشنا ہوسکو ، محسوس کررہی ہوں تم سے باتیں کرنے کا اب وہ موقع آچکا ہے ۔
انسانوں کا وجود گراں بہا ترین گوہر ہے ، اس موتی نما بدن کی گناہ سے حفاظت اور طھارت نفس ، روح کی ترقی اور نیکیوں کے راستے پرگامزن ہونے کا راز ہے۔
یہودی خواتین میں پردہ کوئی ایسی چیز اور ایشو نہیں ہے جس سے کوئی انکار کرسکتا ہو اور حتی شک و شبہ کا مقام بھی نہیں ہے ، مورخین نے نہ فقط یہودی خواتین میں پردہ رائج ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں قلم فرسائی کی ہے بلکہ دین یہود میں پردہ کے سلسلہ میں موجود افراط اور تفریط کا بھی تذکرہ کیا ہے ،
قال الله تعالى:''وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا'' [سورہ نور، آیت 31]
قال اللہ تعالی:''يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا''؛اے نبی !
قال رسول الله (ص):''صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، و نساء كاسيات عاريات، مميلات مائلات، رؤسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، و لايجدن ريحها، و إن ريحها ليوجد من مسيرة كذا و كذا''دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا، ایک قسم ت
لفظ حجاب کہ جو پردہ کے معنی میں ہے حاجب سے بنا ہے ، حاجب اس چیز کو کہتے ہیں جو دوچیزوں کے درمیان حائل اور فاصلہ کا سبب بنے ، (۱)
امام حسن عسکری (علیه السلام) کی نظر میں کنبہ اور گھرانہ، بچوں کی پرورش اور تربیت میں اہم رول اور کردار رکھتا ہے کہ جو معاشرہ کی سلامتی اور امنیت کا ضامن ہے۔
ایسی عورت جو اپنے سر کے بال نامحرم سے نہ چھپاتی ہو اسکے لیے سخت عذاب ہے۔
خلاصہ: ہر ماں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی بچپن سے ہی پردے کا عادت ڈالیں۔