لفظ حجاب کہ جو پردہ کے معنی میں ہے حاجب سے بنا ہے ، حاجب اس چیز کو کہتے ہیں جو دوچیزوں کے درمیان حائل اور فاصلہ کا سبب بنے ، (۱)
البتہ جس طرح کہ محققین اور مفسرین بیان کرتے ہیں کہ لفظ حجاب کا عورتوں کے پردہ کے معنی میں استعمال، عصر کی حاضر کی نئی اصطلاح ہے ، ماضی میں جو کچھ بھی اس لفظ کے سلسلہ میں کہا گیا حتی فقھاء کی اصطلاح میں بھی، وہ ستر یعنی چھپانے کے معنی میں ہے ۔ (۲)
بیگانہ اور غیر مردوں کے سامنے عورتیں اپنے بدن کو چھپائیں اور غیر مردوں کی نگاہ پڑنے سے خود کو محفوظ رکھیں یہ اسلامی شریعت کا اہم مسئلہ ہے ، قران کریم نے بھی گھر اور معاشرہ کی سلامتی ، فساد سے دور رکھنے نیز خواتین کی عظمت و بلندی کیلئے ، عورتوں پر حجاب واجب کیا ۔
البتہ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ حجاب خواتین کے پردہ کے معنی میں دین اسلام کے آنے سے بھی پہلے دنیا کے مختلف اور متعدد ادیان میں مختلف طریقہ سے موجود تھا ، پردہ کا حکم اسلام کا خاص حکم یعنی تاسیسی حکم نہیں ہے بلکہ دین مبین اسلام نے اسے قبول کیا ہے اور مانا ہے ، جیسا کہ تاریخ اسلامی میں مرقوم ہے کہ اسلام نے حجاب اور پردہ کے دائرہ کو ذرا وسیع کردیا ہے ، اس پر خاص توجہ کی ہے اور اسے خاص اہمیت دی ہے ، سرزمین ایران میں اسلام سے پہلے اور ھندوستان میں یھودی عورتیں سخت ترین حجاب اور پردہ کیا کرتی تھیں نیز قدیم ایران میں حتی باپ اور بھائی بھی شادی شدہ عورتوں کیلئے نامحرم شمار کئے جاتے تھے ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ابن منظور، لسان العرب، ماده ی حجب
۲: تفسیر نمونه، ج 17، ص 402؛ اور شھید مطهری، مرتضی، مسئله حجاب، ص 78
۳: ویل دورانت، تاریخ تمدن، ج 12، ص 30؛ ج 1، ص 552
Add new comment