ہر نبی نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی طرف دعوت دی ان میں سے کچھ لوگ ان پر ایمان لاتے اور کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اس نبی کے خلاف محاذ آرائی کیا کرتے تھے؛ اللہ کی طرف دعوت دینے کے لئے ہر نبی کے دوسرے انبیا کے ساتھ کچھ مشترکہ وسائل اور ذرائع ہوا کرتے تھے جبکہ ہر نبی کے پاس اپنی قوم کی ہدایت کے لئے انہیں کے حالات کے مطابق وسائل اور طور طریقے الگ الگ بھی ہوتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے مختلف طور طریقوں میں سے انذار، تبشیر، آگاہ کرنا، روشن بیانی اور معجزہ دیکھانا تھا۔ لیکن قوم مدین کی اکثریت تعداد نے ان کی مختلف طریقوں سے مخالفت کرتے ہوئے مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو سنگسار اور رجم کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت شعیب علیہ السلام، اللہ کے انبیا میں سے ایک نبی ہیں جن کے نام گرامی کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں گیارہ بار بیان کیا ہے اللہ تعالی کی طرف سے حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم جو "مدین" یا "ایکہ" کے نام سے مشہور تھی کی جانب مبعوث برسالت ہوئے۔
ایکہ کا معنا اور اصحاب الایکہ کون ہیں: "ایکہ" کا معنا "درخت" اور اسی کا جمع "ایۡک" ہے جو کھچا کھچ بھرے ہوئے درخت کو کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا تذکرہ چار سوروں[1] میں مذکور ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ قوم، جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے وہی اصحاب مدین ہی ہیں۔ جبکہ بعض دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ "اصحاب مدین" اور "اصحاب الایکہ" دو الگ الگ قومیں ہیں۔[2] البتہ قرآن کریم میں اصحاب مدین یا قوم مدین کا تذکرہ دس سوروں میں سات بار ہوا ہے۔[3]
اس قوم کی خصوصیات: سورہ مبارکہ شعرا کی آیات میں جو "اصحاب ایکہ" کے متعلق ہیں کے مطابق، یہ لوگ تجارت کرتے ہوئے ناپ تول میں انصاف نہیں برتے تھے اور ترازو سے صحیح نہیں تولا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے فرمایا: «فَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ»[4] اب ناپ تول کو پورا پورا رکھو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو اور اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا نہ کرو -یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔
اس آیت مبارکہ میں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ناپ تول میں انصاف سے کام نہ لینا اور چیزوں میں کم کرنا اور زمین میں فساد برپا کرنا ان کا شیوہ بن چکا تھا تبھی تو اللہ تعالی نے ان کو ان تین کاموں سے روکا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کی ایک روایت کی بنا پر حضرت شعیب علیہ السلام ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ترازو اور ناپ تول کے اوزار کو ایجاد کیا۔ قوم مدین نے ابتدا میں اسی اوزار سے صحیح ناپ تول کیا کرتے تھے مگر کچھ عرصہ بعد اس میں کمی کرنے لگے۔[5] اسی روایت میں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آیت کے اخری حصہ میں افساد کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ابتدا میں صحیح طریقہ سے ناپ تول کرتے یعنی اصلاح کا پہلو کو مدنظر رکھا کرتے تھے مگر اس کے بعد افساد کرنا شروع کر دیا۔
حضرت شعیب علیہ السلام کا اپنی قوم کو انذار کرتے ہوئے مختلف طریقے:
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو صحیح راستہ دیکھانے میں مختلف انداز اپنائے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
1۔ معجزہ دیکھانا: قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بعض دیگر انبیا کی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کے لئے بھی کوئی معجزہ بیان نہیں کیا مگر سورہ اعراف[6] اور سورہ مبارکہ ہود[7] میں "بینہ" کا لفظ جو استعمال کیا ہے اس کے بارے میں مفسرین نے کہا ہے کہ اس لفظ سے معجزہ ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بینہ کے معانی میں سے ایک معجزہ بھی ہے۔
2۔ روشن بیانی: حضرت شعیب علیہ السلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے بعد، ان دو فریضوں پر عمل کرنے کو اپنی قوم کی خیروصلاح سمجھتے تھے؛ سورہ مبارکہ اعراف میں آیا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کی عبادت کرنا، ناپ تول میں انصاف سے کام لینا اور کم فروشی سے اجتناب کرنے کو ہی خیر و صلاح کا معیار قرار دیا ہے۔[8]
3۔ آگاہ کرنا: مُنۡعم کی طرف سے انسان کو نعمتیں دینا اور اس کے انسان پر متعدد احسانوں کے نتیجہ میں، نیک دل اور نیک سیرت انسان کے دل میں منعم کے متعلق ایک ایسا خاص احترام جاگ اٹھتا ہے جو اسے منعم کے سامنے شکریہ ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کردیتا ہے جو اس کی فطرت ہی کے عین مطابق ہوا کرتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی دعوت توحید میں اللہ تعالی کی مختلف اور متعدد نعمتوں کا تذکرہ کیا اور اپنی قوم کو اللہ کی نعمتوں کی یاددہانی کرائی۔ «وَاذْكُرُواْ إِذْ كُنتُمْ قَلِيلاً فَكَثَّرَكُمْ»[9]
4. خوف دلانا: خوف اور امید انسان کی روحی خصلتوں میں سے ہیں جن کے ذریعہ افراد کو دھمکی یا ترغیب دلانے میں موثر واقع ہوسکتی ہیں۔ تمام انبیا الہی کی دعوت میں یہ دو انداز گفتگو سب سے بڑھ کر تبلیغی ذرائع میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی ان دو شیووں سے کام لیا۔ آپ کبھی اپنی قوم کو بتوں کی پوجا کرنے اور ناپ تول میں کمی کرنے کے وجہ سے انہیں قیامت کے عظیم عذاب سے ڈراتے تھے[10] اور کبھی پچھلی امتوں میں فاسد افراد کے انجام کو انہیں یاددہانی کراتے۔[11] قوم کا بتوں کی پوجا کرنا اور ناپ تول میں کمی کرنا اور آپ کو جھٹلانا سے باز نہ آنا کی صورت میں آپ نے دیکھا کہ اب یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے تو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور انہیں خوف دلایا۔ [12]
5. تبشیر: حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتوں کی پوجا کرنے، ناپ تول میں کمی کرنے اور فساد پھیلانے سے پرہیز اور اجتناب کرنے کے نتیجہ میں ایمان ہی کو اس کی اصلی شرط قرار دیا۔ [13]
اصحاب مدین کا حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ سلوک
آپ کا اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دینے ہی کے آغاز میں کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کر لیا اور مدین کا معاشرہ دو گروہوں میں بٹ گیا۔ [14]
کافر گروہ نے جھٹلانے کو اپنا طریقہ بنا کر، آپ اور مومنین کے مقابلہ میں نفسیاتی جنگ کا آغاز کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافرین کا گروہ اکثریت اور مومنین کا گروہ قلت میں تھا۔ جن مختلف ہتکنڈوں کے ذریعہ کافرین ببانگ دہل مخالفت کیا کرتے تھے، کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ استہزا اور مذاق اڑانا: انبیا کا مذاق اڑانا اور ان کا استہزا کرنا قرآن کریم کے مطابق ان ہتھکنڈوں میں شمار کیا گیا ہے جو تمام انبیا الہی کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا؛ جیسے سورہ مبارکہ توبہ[15] نے منافقین کا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مذاق اڑانا اور استہزا کرنے کو بیان کیا ہے اور اسی سورہ مبارکہ میں مذاق اڑانے اور استہزا کرنے کو پچھلی اقوام منجملہ اصحاب مدین کا شیوہ اور طریقہ کار بتایا ہے.
سورہ مبارکہ ھود آیت نمبر 87 اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ قوم مدین نے آپ کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور آپ کا نماز کا کثرت کے ساتھ بجالانے کو مذاق کا موضوع قرار دیا کرتے اور استفہام انکاری کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ : " شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو" [16]
2. دھمکی دینا: حضرت شعیب علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں نے دعوت الہی کا پرچار کرنے کے مقابلہ میں معاشرتی اور نفسیاتی اذیتیں جھیلیں جن میں ایک کافروں کی جانب سے ڈرانا دھمکانا تھا۔ آپ کے مستدل باتوں کے مقابلہ میں جو کافر لوگ بے بس ہوگئے وہ رجم اور سنگسار کرنے کی دھمکی دینے لگے۔ [17]
نتیجہ: ہر نبی نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی طرف دعوت دی ان میں سے کچھ لوگ ان پر ایمان لاتے اور کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اس نبی کے خلاف محاذ آرائی کیا کرتے تھے؛ اللہ کی طرف دعوت دینے کے لئے ہر نبی کے دوسرے انبیا کے ساتھ کچھ مشترکہ وسائل اور ذرائع ہوا کرتے تھے جبکہ ہر نبی کے پاس اپنی قوم کی ہدایت کے لئے انہیں کے حالات کے مطابق وسائل اور طور طریقے الگ الگ بھی ہوتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے مختلف طور طریقوں میں سے انذار، تبشیر، آگاہ کرنا، روشن بیانی اور معجزہ دیکھانا تھا۔ لیکن قوم مدین کی اکثریت تعداد نے ان کی مختلف طریقوں سے مخالفت کرتے ہوئے مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو سنگسار اور رجم کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔
.............................................
حوالہ جات:
[1] حجر، آیه 78 /شعرا، آیه 176./ص، آیه 13./ ق، آیه 14
[2] طبری، تاریخ، ج1، ص327/ مقدسی مطهر، البدء و التاریخ، ج3، ص76، / سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر المأثور، ج5، ص91، بیروت، 1403ق /1983م.
[3] الأعراف: 85" وَ إِلی مَدْیَنَ أَخاهُمْ شُعَیْباً قالَ یا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَکُمْ مِنْ إِلهٍ غَیْرُهُ قَدْ جاءَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَأَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمیزانَ وَ لا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیاءَهُمْ وَ لا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِها ذلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ"/
التوبة: 70" أَ لَمْ یَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَ عادٍ وَ ثَمُودَ وَ قَوْمِ إِبْراهیمَ وَ أَصْحابِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِکاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّناتِ فَما کانَ اللَّهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لکِنْ کانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ"
هود: 84" وَ إِلی مَدْیَنَ أَخاهُمْ شُعَیْباً قالَ یا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَکُمْ مِنْ إِلهٍ غَیْرُهُ وَ لا تَنْقُصُوا الْمِکْیالَ وَ الْمیزانَ إِنِّی أَراکُمْ بِخَیْرٍ وَ إِنِّی أَخافُ عَلَیْکُمْ عَذابَ یَوْمٍ مُحیطٍ"
طه: 40 "إِذْ تَمْشی أُخْتُکَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلی مَنْ یَکْفُلُهُ فَرَجَعْناکَ إِلی أُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُها وَ لا تَحْزَنَ وَ قَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّیْناکَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنَّاکَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنینَ فی أَهْلِ مَدْیَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلی قَدَرٍ یا مُوسی"
الحج: 44" وَ أَصْحابُ مَدْیَنَ وَ کُذِّبَ مُوسی فَأَمْلَیْتُ لِلْکافِرینَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کانَ نَکیرِ"
القصص: 22 "وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقاءَ مَدْیَنَ قالَ عَسی رَبِّی أَنْ یَهْدِیَنی سَواءَ السَّبیلِ"
القصص: 23 "وَ لَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ یَسْقُونَ وَ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَیْنِ تَذُودانِ قالَ ما خَطْبُکُما قالَتا لا نَسْقی حَتَّی یُصْدِرَ الرِّعاءُ وَ أَبُونا شَیْخٌ کَبیرٌ"
القصص: 45 "وَ لکِنَّا أَنْشَأْنا قُرُوناً فَتَطاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ وَ ما کُنْتَ ثاوِیاً فی أَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیاتِنا وَ لکِنَّا کُنَّا مُرْسِلینَ"
العنکبوت: 36 "وَ إِلی مَدْیَنَ أَخاهُمْ شُعَیْباً فَقالَ یا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْآخِرَ وَ لا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدینَ"
هود: 95 " کَأَنْ لَمْ یَغْنَوْا فیها أَلا بُعْداً لِمَدْیَنَ کَما بَعِدَتْ ثَمُودُ"
[4] سورہ اعراف، آیت نمبر ۸۵
[5] قصص الانبیاء، ص 145
[6] «قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ» سوره اعراف/ 85
[7] «قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ» سوره هود/ 88
[8] «ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» سوره اعراف/ 85
[9] سوره اعراف/ 86
[10] « وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ» سوره هود/83
[11] «وَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ» سوره اعراف/ 86 اور سوره هود/ 89
[12] «وَيَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُواْ إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ» سوره هود 93؛ سوره اعراف، 87
[13] «يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ... ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» سوره اعراف، 85
[14] «وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُواْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يْؤْمِنُواْ...» سوره اعراف87؛ سوره هود 94
[15] «يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّـهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ» ﴿سورہ توبہ 64﴾ «وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ » ﴿سورہ توبہ، 65﴾
[16] سورہ ھود، آیت نمبر 87 /جامعالبیان، ج 7، ج 12، ص 133ـ135؛ مجمعالبیان، ج 5، ص 286؛ تفسیر بیضاوى، ج 2، ص 279
[17] وَلَوْلاَ رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ؛ سورہ ھود، 91
Add new comment