خلاصہ: حضرت شعیب کی قوم جو اہل مدین اور اصحاب الایکہ تھی، انہوں نے آنحضرت کی مختلف طریقوں سے نافرمانی کی اور جب ان کی نافرمانی آخری حد تک پہنچ گئی تو ان پر عذاب نازل ہوگیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت شعیب (علیہ السلام) تیسرے عرب نبی ہیں جن کا اسم گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اور عرب انبیاء یہ تھے: حضرات ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد (علی نبینا وآلہ و علیہم السلام)۔ آپ کا نام قرآن کریم میں گیارہ بار ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مَدْیَن اور اَیکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ آنحضرت ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں۔ مدین ایسا شہر تھا جو سرزمین معان، شام کے قریب، حجاز کے آخری حصہ میں قرار پایا تھا۔ وہاں کے لوگ بت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے حتی پیسوں کے سکوں میں سونا چاندی کو کم کرنا، ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے دھوکہ اور فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے۔ اَیکہ، مَدْیَن کے قریب آباد اور درختوں سے بھرا ہوا گاوں تھا، وہاں کے لوگ بھی مدین کے لوگوں کی طرح برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
اللہ تعالی نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت کے لئے مبعوث کیا تاکہ ان کو اور ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں۔ پروردگار عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے:"وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ . وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ . بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ[1]"، "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم! اللہ کی عبادت کر کہ اس کے علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا"۔ اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے: "وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ[2]"، "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ لوگو اللہ کی عبادت کرو اور روزِ آخرت سے امیدیں وابستہ کرو اور خبردار زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو"۔ اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ شعراء میں فرمایا ہے: "كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ . إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ. إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ. فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ[3]"، " اور جنگل کے رہنے والوں نے بھی مرسلین کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں ہو۔ میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں۔ لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو"۔
حضرت شعیب (علیہ السلام) نے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور بشارت بھی دی اور جو عذاب قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے برے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیان، کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا۔ ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا، بلکہ آنحضرت کو اذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو آنحضرت کی فرمانبرداری سے منع کیا۔ جو راستہ بھی حضرت شعیب پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اِس راستے کی نفرت پھیلائیں۔ اور پھر الزام لگانا شروع کردیا، کبھی آنحضرت کو جادوگر کہتے، کبھی كذّاب (جھوٹا) کہتے۔ انہوں نے آنحضرت کو دھمکی دی کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آنحضرت اور آنحضرت پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاو۔ انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا یہاں تک کہ آنحضرت ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی اور اللہ تبارک و تعالی سے فتح طلب کی، عرض کیا: "رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ[4]"، "خدایا تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرمادے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے"۔ اس دعا کے بعد اللہ تعالی نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کردیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی۔ اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ قرآن کریم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے: "وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ . كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ[5]"، "اور جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ظلم کرنے والوں کو ایک چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ اپنے دیار ہی میں الٹ پلٹ ہوگئے۔ جیسے کبھی یہاں بسے ہی نہیں تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قوم مدین کے لئے ویسے ہی ہلاکت ہے جیسے قوم ثمود ہلاک ہوگئی تھی"۔
نتیجہ: انبیائے الہی تمام تر کوشش کرتے رہے کہ اپنی قوم کی ہدایت کریں اور شرک و بت پرستی کے ذلت خیز گڑھے سے نکال کر توحید پرستی کی باعزت بلندی پر لے چلیں، لیکن کئی قوموں نے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی اور مختلف طریقوں سے جھٹلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے گمراہی کے اندھیروں کو ہر طرف سے اپنے اوپر یوں لپیٹ لیا کہ ہدایت کی کسی کرن کے نظر آنے کا امکان نہ رہا اور ان کے سیدھے راستے پر آنے سے ہدایت کرنے والے نبی بالکل ناامید ہوگئے تو عذاب الہی نے ان کو گرفت میں لے لیا اور غضب پروردگار نے عقاب میں جکڑ دیا۔ عذاب کی صورت اور ان کا سیاہ انجام، مستقبل میں آنے والی اقوام کے لئے درس عبرت اور نشانِ خوف بن کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ ہود، آیات 84، 85، 86۔
[2] سورہ عنکبوت، آیت 36۔
[3] سورہ شعراء، آیات 176 سے 179 تک۔
[4] سورہ اعراف، آیت 89۔
[5] سورہ ہود، آیت 94۔
Add new comment