عظیم مقتدر کی عجیب موت

Sun, 04/16/2017 - 11:16

موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی  حاکموں  سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اور پھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے،لہذا ہمیں ہر وقت موت جیسی حقیقت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بارگاہ خداوندی میں حضوری کے لئے تیار رہنا چاہئے۔-

عظیم مقتدر کی عجیب موت

 

          موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی،بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی شی ہے۔
          موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے، نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو بھی موت اپنے گلے لگا لیتی ہے اور گھر بیٹھنے والوں کو بھی موت نہیں چھوڑتی۔ اخروی ابدی زندگی کو دنیاوی فانی زندگی پر ترجیح دینے والے بھی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں، اور دنیا کے دیوانوں کو بھی موت اپنا لقمہ بنالیتی ہے۔قرآن مجید میں بھی مختلف انداز سے ان حقائق کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ، لیکن مقالہ کے اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو ذکر نہیں کیا جاسکتا۔[1]
             مقالہ ھذا میں اس عظیم الشان شخص کی موت کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ جسے خدا نے ایسی حکومت و سلطنت سے نوازا کہ جیسی کسی اور کو عطا نہیں فرمائی چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے عظیم الشان سلطنت  عطا کی ہے جو میرے بعد کسی کو نصیب نہ ہوگی، اللہ نے میرے ہاتھوں میں ہواؤں، جنات، انسانوں اور پرندوں کو مسخر کیا ہے اور مجھے پرندوں کی زبان تعلیم فرمائی ہے، اس کے باوجود میں نے پوری زندگی ایک دن کبھی سکون سے بسر نہیں کیا ، اسی لئے میری خواہش ہے کہ کل کا پورا دن کوئی مجھے ملنے نہ آئے میں اپنے محل پر چڑھ کر اپنی سلطنت کا نظارہ کروں گا۔
           صبح ہوئی حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عصا کو ہاتھ میں لے کر محل پر آگئے اور خوش ہو کر اپنی سلطنت کا نظارہ کرنے لگے، اتنے میں انہوں نے ایک خوش لباس اور خوبصورت جوان کو محل کے ایک گوشہ میں دیکھا تو اس سے پوچھا ’’ تو کس کی اجازت سے اس محل میں داخل ہوا؟‘‘
          جوان نے کہا ’’ میں محل کے مالک کی اجازت سے داخل ہواہوں‘‘۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ’’ بے شک اس محل کا مالک (خدا) میری نسبت تجھے اجازت دینے کا زیادہ اہل ہے‘‘۔ پھر پوچھا ’’ کیوں آئے ہو‘‘؟ جواب دیا ’’ میں آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں‘‘۔
حضرت سلیمان علیہ السلام:  ’’ تم اپنا فرض ادا کرو میں آج کے دن خوشی اور مسرت سے گزارنا چاہتاتھا لیکن میرے خدا نے چاہا کہ میں ملاقات خدا سے لطف اندوز ہوں‘‘۔
          حضرت سلیمان نے عصا کا سہارا لیا ار ملک الموت نے ان کی روح قبض کرلی موت کے بعد بھی سلیمان نبی اسی عصا کا سہارا لئے اپنے محل پر کھڑے رہے، لوگ سلیمان کو کھڑا دیکھ کر سمجھ تے رہے کہ آپ زندہ ہیں۔
          چند دنوں کے بعد اختلاف پیدا ہوگیا کچھ لوگوں نے کہا: ’’ سلیمان کافی دن سے ایک ہی جگہ کھڑے ہیں نہ وہ کچھ کھاتے ہیں اور نہ ہی کچھ پیتے ہیں،  ہو نہ ہو وہی ہمارے خدا ہیں‘‘۔
           ایک گروہ نے کہا ’’ سلیمان (نعوذ باللہ) جادو گر ہیں۔مومنین کی جماعت نے کہا: ’’ سلیمان خدا کے بندے اور اس کے نبی ہیں اللہ تعالی ان کے لئے جو مناسب سمجھے گا فیصلہ کرے گا۔
          پھر خدا وند کریم نے ان کے عصا پر دیمک کو مسلط کردیا وہ عصا کو چاٹتی رہی جب عصا کا اندرونی حصہ خالی ہوا تو حضرت سلیمان علیہ السلام محل کی چھت سے زمین پر آگرے، حضرت سلیمان علیہ السلام کے گرنے کے بعد جنات کو علم ہوا کہ آپ وفات پاگئے ہیں، چنانچہ اس دن سے لے کر آج تک قومِ جنات دیمک کے ممنون احسان چلی آرہی ہے۔جہاں بھی دیمک ہوگی قوم جنات اسے پانی پہنچائے گی۔[2]
          خداوند عالم نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو ان الفاظ سے بیان فرمایا : ’’ فَلَمَّا قَضَيْنا عَلَيْهِ الْمَوْتَ ما دَلَّهُمْ عَلى‏ مَوْتِهِ إِلاَّ دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ ما لَبِثُوا فِي الْعَذابِ الْمُهينِ‘‘ (سبا/14) پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔
       مذکورہ آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں، لہذا ہمیں ہر وقت ہر لمحہ موت کے لئے تیار رہنا چاہئے  اور ہر وقت اس حقیقت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ایسے اعمال انجام دینا چاہئے جس سے خدا خوشنود اور اہل بیت علیھم السلام راضی ہوں۔
 

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] مزید معلومات کے لئے مندرجہ آیات کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
سورۂ آل عمران ۱۸۵    سورۂ رحمن ۲۶۔۲۷)   سورۂ القصص ۸۸    سورۂ الانبیاء ۳۴ ۔ ۳۵   سورۂ النساء ۷۸   سورہ الجمعہ ۸    سورۂ الاعراف ۳۴    سورہ لقمان ۳۴۔
[2] بحار الأنوار، ج‏14، ص136،محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان‏، 1404 قمرى‏۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67