تقوی
"جویبر" رسول اسلام(ص) کے صحابی یمامہ کے رہنے والے تھے ، مدینہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ، کوتاہ قد ، محتاج و برھنہ اور کسی قدر بدصورت بھی تھے ، پیغمبر اسلام (ص) اپ کو کافی تسلی دیتے تھے اور انحضرت (ص) کے حکم کے مطابق جویبر راتوں کو مسجد میں ہی
جس چیز کے بارے میں انسان سب سے پہلے اعتقاد پیدا کرتا ہے وہ اسلام ہے، اور اسلام سے ایک درجہ اوپر، ایمان ہے، اور ایمان سے ایک درجہ اوپر، تقوی ہے، اور تقوی سے ایک درجہ اوپر، یقین کا درجہ ہے ۔
خلاصہ: ایک جوان تقوی اور صبر کے ذریعہ ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔
خلاصہ: اگر انسان اپنے آپ کو گناوں سے محفوط رکھے تو خدا اس کے دل میں وہ بصیرت عطا کرتا ہے کہ جس کہ ذریعہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے۔
خلاصہ: تقوی انسان کو ہمیشہ توبہ کرنے پر ابھارتا رہتا ہے اور گناہ انسان کو توبہ کرنے سے غافل رکھتا ہے۔
خلاصہ: اگر انسان تقوی اختیار کرلے تو وہ کبھی بھی پریشان نہیں ہوگا۔
خلاصہ: دنیا کی رحمت ہر کس کو ملنے والی لیکن آخرت کی نعمت صرف اور صرف اس کے لئے ہے جو تقوی اختیار کرے۔
تقویٰ کا مصدر وقایہٰ ہے، جس کے معنی ہیں حفاظت اور پرہیزگاری۔ شرعی اصطلاح میں خود کو ہر اس چیز سے روکنا جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہو، باالفاظِ دیگر اوامر و نواہی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا تقویٰ ہے چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب تقویٰ کے معنی دریافت کیے گئے تو آپ نے فرمایا :اَنْ َ لایَفْقُدُکَ حَیْثُ اَمَرَکَ وَ َ لا یَدَاکَ حَیْثُ نَهَاکَ؛"جہاں حکمِ خدا ہے وہاں سرِ تسلیم خم کر دو اور جہاں نہی خداوندی ہے وہاں سے دُور رہو"۔[سفینة البحار جلد ۳ ص ۶۷۸]
خلاصہ: تقوی اور پرھیزگاری نیز اپنی غلطیوں کو بڑا سمجھنے کا تصور غصہ کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔