جس چیز کے بارے میں انسان سب سے پہلے اعتقاد پیدا کرتا ہے وہ اسلام ہے، اور اسلام سے ایک درجہ اوپر، ایمان ہے، اور ایمان سے ایک درجہ اوپر، تقوی ہے، اور تقوی سے ایک درجہ اوپر، یقین کا درجہ ہے ۔
اسلام ظاہری شہادتین سے شروع ہوتا ہے، اس کے بعد یہ ایمان میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور جب انسان کے اعضاء و جوارح میں ایمان ظاہر ہونے لگتا ہے، اور انسان واجبات کو انجام دیتا ہے اور محرمات کو ترک کرتاہے،اس وقت تقوے کے مرحلے تک پہنچ جاتا ہے، اور پھر اسکے بعد یقین کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، اسلام سے لیکے تقوے کے مرحلے تک اور پھر مرحلۂ یقین تک پہنچنے میں انسان کئی حوادث کا سامنا کرتا ہے اور ان تمام حوادث میں ثابت قدم رہنا اور ناخوشگوار حالات کا صبرو شکر کے ساتھ مقابلہ کرنا اور مقدرات الٰہی پر راضی رہنا ہی انسان کو کمال تک پہنچاتا ہےاور یہی یقین کا سب سے بلند درجہ ہے اسی لیے امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:اَلرِّضَا بِمَكْرُوهِ اَلْقَضَاءِ أَرْفَعُ دَرَجَاتِ اَلْيَقِينِ؛ ناخوشگوار مقدرات پر راضی رہنا یقین کا سب سے بلند درجہ ہے۔ [تحف العقول، جلد 1،صفحه 278] گویا اگر ہم یقین کے سب سے بلند درجے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں زندگی کے نشیب و فراز کو راضی خوشی گزارنا چاہیئے۔
منبع: تحف العقول عن آل الرسول علیهم السلام، الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة الحراني، مؤسسة الأعلمي-بيروت،1423هـ-2002م
Add new comment