خطبہ فدکیہ
وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ،
اللہ نے اہلبیت كى اطاعت كو ملت اسلامیہ كے نظم كیلئے ضروری قرار دیا
وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ،
اللہ نے عدالت كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزدیكى كیلئے ضرورى قرار دیا ۔
وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ
اللہ نے حج كو واجب كرکے دین كى بنیاد كو استوار كیا ۔
فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ
اللہ نے ایمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسیلہ قرار دیا
وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ،
نماز کو تكبر سے دور رہنے کیلئے واجب کیا
وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،
تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسی عظیم شخصیت کی موجودگی کے باوجود خلفاء نے باغ فدک کے مسئلہ میں حضرت علیؑ کے فیصلے سے استفادہ کیوں نہ کیا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ باغ فدک کے مقدمہ سے متعلق بھی حضرت علیؑ نے خلیفہ اول کے سامنے قرآنی دلائل پیش کیے تھے ، مگر افسوس ابوبکر نےقرآن کے تمام دلائل کو رد کردیا۔
حضرت زهرا سلام الله علیها کا خطبہ فدک، مرسل اعظم صلی الله علیہ و الہ و سلم کی وفات کے بعد اپ پر ہونے والے مظالم کی ناقابل انکار اور قیمتی دستاویز اور سند ہے ، حضرت (س) نے اس خطبہ میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و اله وسلم کے انتقال کے بعد عرب معاشرہ کے حالات اور حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، ہم نے اس سے
اس مضمون میں ہمارا مقصد اہل تسنّن مصادر سے شیعہ موقف کو ثابت کرنا ہے۔ اس مضمون میں ہم یہ پیش کریں گے کہ بزرگ اہل تسنّن علماء کی تالیفات میں یہ بات موجود ہے کہ سرورِ کائنات (ص) نے اپنی حیات طیبہ ہی میں فدک کی ملکیت خاتون محشر ، حضرتِ فاطمہ زہرا (س) کے سپرد کردی تھی۔ لہذا باغ فدک نہ مسلمانوں کا حق ہے اور نہ ہی رسول اللہ (ص) کی میراث ہے۔
حضرت زهرا سلام الله علیها نے خطبہ فدک میں اپنے بابا کے بعد کے ان حقائق اور حالات سے پردہ اٹھایا ہے جو مسلمان اور اسلامی معاشرہ کی گمراہی نیز لوگوں کے دلوں کے مردہ ہوجانے کا سبب بنے تھے۔
نفاق کا مفھوم
«مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اِسْتِماعُهُ»
[خطبہ فدکیہ]
قرآن کی باتوں کو سننے سے نجات کا راستہ مل سکتا ہے۔