اس مضمون میں ہمارا مقصد اہل تسنّن مصادر سے شیعہ موقف کو ثابت کرنا ہے۔ اس مضمون میں ہم یہ پیش کریں گے کہ بزرگ اہل تسنّن علماء کی تالیفات میں یہ بات موجود ہے کہ سرورِ کائنات (ص) نے اپنی حیات طیبہ ہی میں فدک کی ملکیت خاتون محشر ، حضرتِ فاطمہ زہرا (س) کے سپرد کردی تھی۔ لہذا باغ فدک نہ مسلمانوں کا حق ہے اور نہ ہی رسول اللہ (ص) کی میراث ہے۔
عالم اسلام میں اگر کسی میراث اور جاگیر کی بہت زیادہ اہمیت رہی ہے تو وہ باغ فدک ہے۔ رسول خدا (ص) کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جو اختلافات شروع ہوئے ان میں ایک مرکزی حیثیت باغ فدک کو بھی حاصل ہے۔ اہل تشیع اس باغ کو ہمیشہ سے دختر رسولؐ جناب فاطمہ علیہا سلام کی ملکیت مانتے رہے ہیں ۔ اہل تسنّن علماء کے درمیان اس بابت دو رائے پائی جاتی تھی، بعض خلفاء اسے مسلمانوں کا حق مانتے تھے تو بعض اس کو جناب سیدہ (س) کی جاگیر جانتے تھے۔ جن خلفاء ، مثلًا عمر بن عبد العزیز، نے زمین کے اس خِطّے کو جناب فاطمہ (س) کا حق جانا ، انھوں نے اپنے خیال (یا اسے اجتہاد کہیے) کی تائید میں اپنے دورِ حکومت میں فدک کو اولاد فاطمہ (س) کے سپرد کردیا۔
اس مضمون میں ہمارا مقصد اہل تسنّن مصادر سے شیعہ موقف کو ثابت کرنا ہے۔ اس مضمون میں ہم یہ پیش کریں گے کہ بزرگ اہل تسنّن علماء کی تالیفات میں یہ بات موجود ہے کہ سرورِ کائنات (ص) نے اپنی حیات طیبہ ہی میں فدک کی ملکیت خاتون محشر ، حضرتِ فاطمہ زہرا (س) کے سپرد کردی تھی۔ لہذا باغ فدک نہ مسلمانوں کا حق ہے اور نہ ہی رسول اللہ (ص) کی میراث ہے۔ چند مشہور حوالہ جات یہ ہیں:-
• علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ‘الدر المنثور’ میں سورہ اسراء کی آیت ‘و آتِ ذِی القُربٙی حٙقّٙہُ'(اپنے قرابت داروں کو ان کا حق دے دو) کے ذیل میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئ تو رسول الله (ص) نے فاطمہؑ کو بلایا اور فدک انھیں دے دیا۔ اسی طرح ابن عباس نے بھی روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ‘و آتِ ذِی القُربٙی حٙقّٙہُ’ نازل ہوئ تو آنحضرت (ص) نے فدک کو اپنی ملکیت سے خارج کر کے فاطمہ (س) کے حوالے کردیا۔ (الدرالمنثور ج ۵ ص ٢٧٣)
• یہی بات ہیثمی نے بھی ابوسعید خدری سے روایت کی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٧ ص ۴٩)
• میزان الاعتدال میں ذہبی نے اس روایت کو نقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ (میزان الاعتدال ج ٣ ص ١٣۵)۔
• ملّا متقی ہندی نے بھی اپنی تالیف ‘کنزالعمال’ میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت ‘و آتِ ذِی القُربٙی حٙقّٙہُ’ نازل ہوئ تو پیغمبر اسلام(ص) نے فاطمہؑ کو فدک ہبہ کر دیا اور فرمایا: “اے فاطمہؑ ! یہ فدک اب تمھارا ہے۔”(کنزالعمال ج ٣ ص ٧٦٧)
یہی موقف دختر رسول (ص) کا بھی تھا کہ ان کے پدربزرگوار رسول اکرم (ص) نے فدک کی ملکیت ان کے حوالے کردی تھی مگر افسوس کہ خلیفہ نے آپ کی بات کو قبول نہ کیا۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ جس خاتون کی گواہی کیا بلکہ محض وجودنے نجران کے نصاری’ کے خلاف اسلام کے وقار کا تحفظ کیا ، اسی مقدس خاتون سےخلیفہ گواہی طلب کر رہا تھا۔
حضرت زہرا (س) کا خود دربار میں حاضر ہو کر فدک کو اپنے والد محترم سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کرنا:
پہلے مرحلے میں حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کا اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کیا، لیکن ابوبکر نے حضرت زہرا سے کہا کہ اپنے اس دعوی پر گواہ لے کر آئے۔ حضرت زہرا نے علی (ع)، ام ایمن اور رسول خدا (ص) کے غلام رباح کو اپنے گواہوں کے طور پر پیش کیا۔
بعض دوسری روایات کے مطابق حضرت زہرا (س) گواہی کے لیے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو اپنے ساتھ لے گئیں، لیکن بہت ہی افسوس کہ ابوبکر نے مختلف بہانوں سے انکی گواہی کو جھٹلا دیا۔
اس بارے میں ہم شیعہ اور اہل سنت کی روایات کو ذکر کرتے ہیں:
روایت اول: از امام صادق (ع):
علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں آیت «فَآتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ وَ الْمِسْكِینَ وَ ابْنَ السَّبِیلِ» کی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:
حَدَّثَنِی أَبِی عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِیسَى وَ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ لَمَّا بُویعَ لِأَبِی بَكْرٍ وَ اسْتَقَامَ لَهُ الْأَمْرُ عَلَى جَمِیعِ الْمُهَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ بَعَثَ إِلَى فَدَكَ فَأَخْرَجَ وَكِیلَ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله مِنْهَا- فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ علیها السلام إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقَالَتْ یا أَبَا بَكْرٍ مَنَعْتَنِی عَنْ مِیرَاثِی مِنْ رَسُولِ اللَّهِ وَ أَخْرَجْتَ وَكِیلِی مِنْ فَدَكَ فَقَدْ جَعَلَهَا لِی رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله بِأَمْرِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهَا هَاتِی عَلَى ذَلِكَ شُهُوداً- فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ فَقَالَتْ لَا أَشْهَدُ- حَتَّى أَحْتَجَّ یا أَبَا بَكْرٍ عَلَیكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله فَقَالَتْ أَنْشُدُكَ اللَّهَ، أَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله قَالَ إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ بَلَى، قَالَتْ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله «فَآتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ» فَجَعَلَ فَدَكَ لِفَاطِمَةَ بِأَمْرِ اللَّهِ- وَ جَاءَ عَلِی علیه السلام فَشَهِدَ بِمِثْلِ ذَلِكَ- فَكَتَبَ لَهَا كِتَاباً بِفَدَكَ وَ دَفَعَهُ إِلَیهَا- فَدَخَلَ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَذَا الْكِتَابُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ فَاطِمَةَ ادَّعَتْ فِی فَدَكَ وَ شَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ وَ عَلِی فَكَتَبْتُ لَهَا بِفَدَكَ، فَأَخَذَ عُمَرُ الْكِتَابَ مِنْ فَاطِمَةَ فَمَزَّقَهُ وَ قَالَ هَذَا فَیءُ الْمُسْلِمِین.....،
امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جب ابوبکر کی بیعت کی گئی اور اسکی خلافت کا زبردستی اعلان ہو گیا تو، اس نے اپنے بندوں کو باغ فدک بھیجا اور انھوں نے باغ فدک میں کام کرنے والے حضرت زہرا کے کاریگروں کو وہاں سے زبردستی نکال دیا۔ فاطمہ ابوبکر کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: اے ابوبکر! تم نے مجھے رسول خدا کی میراث سے محروم کر دیا ہے اور میرے مزدوروں کو بھی وہاں سے نکال دیا ہے، حالانکہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو مجھے دیا تھا۔
ابوبکر نے کہا کہ: اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیے گواہ لے کر آؤ۔ حضرت زہرا نے ام ایمن کو پیش کیا۔ اس نے کہا کہ: میں رسول خدا (ص) کے اس فرمان پر گواہی دیتی ہوں تا کہ تمہارے سامنے احتجاج کر سکوں۔ ام ایمن نے کہا کہ: اے ابوبکر میں تم کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ: ام ایمن اہل جنت میں سے ہے ؟ ابوبکر نے جواب دیا: ہاں سنا ہے، ام ایمن نے کہا کہ: میں گواہی دیتی ہوں کہ: خداوند نے اپنے رسول کو وحی کی کہ اپنے ذوی القربی کا حق انکو دے دو، اس پر رسول خدا نے فدک کو خداوند کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی فاطمہ کو دے دیا، پھر علی آئے اور انھوں نے بھی ام ایمن کی طرح گواہی دی۔ یہ سن کر ابوبکر نے حضرت زہرا کے لیے ایک حکم نامہ لکھا اور انکو دیا کہ، جس میں لکھا تھا کہ، فدک انکو واپس کر دیا جائے۔ اسی وقت عمر ابوبکر کے پاس آیا اور کہا: یہ کیسا حکم نامہ ہے ؟ ابوبکر نے کہا کہ: فاطمہ نے فدک کے بارے میں ایک دعوی کیا تھا اور اپنے اس دعوی پر ام ایمن اور علی (ع) کو گواہی کے لیے بھی پیش کیا ہے اور انھوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہرا کو عطا کیا تھا، میں نے اسی وجہ سے اس حکم نامے کو لکھ کر حضرت زہرا کو دیا ہے۔ یہ سن کر عمر نے فاطمہ (س) سے حکم نامہ لے کر اسکو پھاڑ کر کہا کہ یہ فدک تمام مسلمانوں کا حق ہے......،
القمی، أبی الحسن علی بن ابراهیم (متوفى310هـ) تفسیر القمی، ج2، ص 156، تحقیق: تصحیح وتعلیق وتقدیم: السید طیب الموسوی الجزائری، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.
روایت دوم: از مالک بن جعونہ:
بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے ابوبکر سے مطالبہ کیا تھا:
وَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَیمُونٍ الْمُكْتِبُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفُضَیلُ بْنُ عَیاضٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ جَعْوَنَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ لأَبِی بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله جَعَلَ لِی فَدَكَ، فَأَعْطِنِی إِیاهُ، وَشَهِدَ لَهَا عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَسَأَلَهَا شَاهِدًا آخَرَ، فَشَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتِ یا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ أَنَّهُ لا تَجُوزُ إِلا شَهَادَةُ رَجُلَینِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَینِ، فَانْصَرَفَتْ.
مالك بن جعونہ نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ: فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو، اور علی (ع) نے حضرت زہرا کے لیے گواہی دی۔ ابوبکر نے ایک دوسرا گواہ طلب کیا تو، ام ایمن نے بھی گواہی دی۔ ابوبکر نے کہا کہ: اے رسول خدا کی بیٹی آپ کو تو معلوم ہے کہ دو مرد اور ایک عورت کی گواہی قبول کی جاتی ہے۔ حضرت زہرا ابوبکر کی یہ بات سن کر وہاں سے چلی گئیں۔
البلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر (متوفی279هـ)، فتوح البلدان، ج 1، ص 44، تحقیق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت – 1403هـ
روایت سوم: از جعفر بن محمد:
بلاذرى نے ایک دوسری روایت کو اسطرح نقل کیا ہے کہ:
وَ حَدَّثَنِی رَوْحٌ الْكَرَابِیسِی، قَالَ: حَدَّثَنَا زَیدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ رَجُلٍ حَسِبَهُ رَوْحٌ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِی اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لأَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ: أَعْطِنِی فَدَكَ، فَقَدْ جَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم لِی، فَسَأَلَهَا الْبَینَةَ، فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ، وَرَبَاحٍ مَوْلَى النَّبِی صلی الله علیه وسلم فَشَهِدَا لَهَا بِذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لا تَجُوزُ فِیهِ إِلا شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَینِ.
جعفر بن محمد نے کہا ہے کہ: فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو۔ یہ سن کر ابوبکر نے ان سے گواہوں کو طلب کیا۔ اس پر فاطمہ نے ام ایمن اور رسول خدا کے غلام رباح کو پیش کیا اور انھوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہرا کو عطا کیا تھا۔ اس پر ابوبکر نے کہا کہ: وہ گواہی قابل قبول ہوتی ہے کہ جو دو مرد اور ایک عورت گواہی دیں۔
البلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر (متوفی279هـ)، فتوح البلدان، ج 1، ص 44، تحقیق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت – 1403هـ.
روایت چہارم: از ابی بكر بن عمرو:
طبری نے ایک دوسری روایت کو ابی بکر بن عمرو کے طریق سے نقل کیا ہے کہ:
و عن عبد الله بن أبی بكر بن عمرو بن حزم عن أبیه قال جاءت فاطمة إلى أبی بكر فقالت اعطنی فدك فإن رسول الله صلى الله علیه وسلم وهبها لی قال صدقت یا بنت رسول الله صلى الله علیه وسلم ولكنی رأیت رسول الله صلى الله علیه وسلم یقسمها فیعطی الفقراء والمساكین وابن السبیل بعد ان یعطیكم منها.
فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو۔ ابوبکر نے کہا کہ: اے رسول خدا کی بیٹی، آپ نے صحیح کہا ہے، لیکن میں نے خود دیکھا تھا کہ رسول خدا نے فدک میں سے آپ کے حصے کو دینے کے بعد، اسکو فقراء، مساکین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
الطبری، ابوجعفر محب الدین أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفى694هـ)، الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ج 2، ص 126، تحقیق: عیسی عبد الله محمد مانع الحمیری، ناشر: دار الغرب الإسلامی - بیروت، الطبعة: الأولى، 1996م.
روایت پنجم: از موسی بن عقبہ:
بلاذری نے ایک دوسری روایت کو موسی بن عقبہ سے نقل کیا ہے کہ:
الْمَدَائِنِی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ خَالِدٍ مَوْلَى خُزَاعَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، قَالَ : دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِی بَكْرٍ حِینَ بُویعَ . فَقَالَتْ : إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ وَرَبَاحًا یشْهَدَانِ لِی أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی فَدَكَ . فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا خَلَقَ اللَّهُ أَحَبَّ إِلَی مِنْ أَبِیكِ، لَوَدِدْتُ أَنَّ الْقِیامَةَ قَامَتْ یوْمَ مَاتَ ، وَ لَأَنْ تَفْتَقِرَ عَائِشَةُ أَحَبُّ إِلَی مِنْ أَنْ تَفْتَقِرِی ، أَفَتَرَینِی أُعْطِی الأَسْوَدَ وَ الأَحْمَرَ حُقُوقَهُمْ وَ أَظْلِمُكِ وَ أَنْتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ إِنَّمَا كَانَ لِلْمُسْلِمِینَ ، فَحَمَّلَ مِنْهُ أَبُوكِ الرَّاجِلَ وَ ینْفِقُهُ فِی السَّبِیلِ ، فَأَنَا إِلَیهِ بِمَا وَلِیهُ أَبُوكِ ، قَالَتْ : وَاللَّهِ لا أُكَلِّمُكَ قَالَ : وَاللَّهِ لا أَهْجُرُكِ . قَالَتْ : وَاللَّهِ لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ عَلَیكَ . قَالَ : لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ لَكِ.
موسی بن عقبہ نے کہا ہے کہ: جب ابوبکر کی بیعت ہو گئی تو حضرت زہرا اس کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: ام ایمن اور رباح گواہی دینے کو تیار ہیں کہ رسول خدا نے فدک کو مجھے عطا کیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم خداوند نے میرے لیے تمہارے باپ سے بڑھ کر کسی کو محبوب خلق نہیں کیا، میں تو چاہتا تھا کہ انکی وفات والے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ میں عایشہ کو تو فقیر اور محتاج دیکھ سکتا ہوں، لیکن میں تم کو فقیر اور محتاج نہیں دیکھ سکتا۔
کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ میں سرخ اور کالے لوگوں کو تو انکے حقوق عطا کرتا ہوں اور کیا میں آپکو آپکا حق نہیں دوں گا ؟ حالانکہ کہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال ( یعنی باغ فدک ) تمام مسلمانوں کا حق ہے، اور تمہارے والد نے فدک کو خدا کی راہ میں مجاہدین پر انفاق کر دیا تھا، یعنی رسول خدا فدک کی آمدنی کو جنگ میں مجاہدین پر خرچ کرتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا جو تمہارے والد انجام دیتے تھے۔ یہ سن کر فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، میں تمہارے لیے بد دعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔
البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر (متوفى279هـ)، أنساب الأشراف، ج3، ص 316، الجامع الكبیر کی سی ڈی کیمطابق،
روایت ششم: ہشام بن محمد :
جوہری نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کیا تھا:
و روى هشام بن محمد، عن أبیه قال: قالت فاطمة، لأبی بكر: إن أم أیمن تشهد لی أن رسول الله (صلى الله علیه وآله)، أعطانی فدك، فقال لها: یا ابنة رسول الله، والله ما خلق الله خلقا أحب إلی من رسول الله (صلى الله علیه وآله) أبیك، ولوددت أن السماء وقعت على الأرض یوم مات أبوك، والله لأن تفتقر عائشة أحب إلی من أن تفتقری، أترانی أعطی الأحمر والأبیض حقه وأظلمك حقك، وأنت بنت رسول الله (صلى الله علیه وآله وسلم)، إن هذا المال لم یكن للنبی (صلى الله علیه وآله وسلم)، وإنما كان مالا من أموال المسلمین یحمل النبی به الرجال، وینفقه فی سبیل الله، فلما توفی رسول الله (صلى الله علیه وآله وسلم) ولیته كما كان یلیه، قالت: والله لا كلمتك أبدا، قال: والله لا هجرتك أبدا، قالت: والله لأدعون الله علیك، قال: والله لأدعون الله لك، فلما حضرتها الوفاة أوصت ألا یصلی علیها، فدفنت لیلا، وصلى علیها عباس بن عبد المطلب، وكان بین وفاتها ووفاة أبیها اثنتان وسبعون لیلة .
فاطمہ (س) نے ابوبکر سے کہا کہ: ام ایمن گواہی دینے کو تیار ہیں کہ رسول خدا نے فدک کو مجھے عطا کیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم خداوند نے میرے لیے تمہارے باپ سے بڑھ کر کسی کو محبوب خلق نہیں کیا، میں تو چاہتا تھا کہ انکی وفات والے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ میں عایشہ کو تو فقیر اور محتاج دیکھ سکتا ہوں، لیکن میں تم کو فقیر اور محتاج نہیں دیکھ سکتا۔
کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ میں سرخ اور کالے لوگوں کو تو انکے حقوق عطا کرتا ہوں اور کیا میں آپکو آپکا حق نہیں دوں گا ؟ حالانکہ کہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال ( باغ فدک ) رسول خدا کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے، کہ جو لوگ لے رسول خدا کے پاس آتے تھے اور وہ بھی اسکو خدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔ اب انکی وفات کے بعد میں اس فدک کا عہدے دار ہوں، جسطرح کہ رسول خدا اپنی زندگی میں، اس فدک کے عہدے دار تھے۔
فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، میں تمہارے لیے بددعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔
جب فاطمہ (س) کا وفات کا وقت نزدیک آیا تو، انھوں نے وصیت کی کہ ابوبکر میرے جنازے میں شریک نہ ہو اور مجھ پر نماز نہ پڑھے، پس انکو رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور عباس بن عبد المطلب نے ان پر نماز پڑھی۔ رسول خدا اور حضرت فاطمہ کی وفات میں 72 دن کا فاصلہ تھا۔
الجوهری، أبی بكر أحمد بن عبد العزیز (متوفی323هـ)، السقیفة وفدك، ص 104، تحقیق: تقدیم وجمع وتحقیق: الدكتور الشیخ محمد هادی الأمینی، ناشر : شركة الكتبی للطباعة والنشر - بیروت – لبنان، الطبعة الأولى 1401 ه - 1980م / الطبعة الثانیة 1413 ه . 1993م
Add new comment