حضرت آدم کے بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے اس وجہ سے خداوند عالم نے اس آیت اور دوسری آیات میں اس کو بیان کیا ہے اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد ان دونوں قربانیوں میں سے ایک قربانی قبول ہوئی اور دوسری قبول نہیں ہوئی ، اگر چہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے (۱) ۔
خداوند عالم نے قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قابیل بے تقوی تھے ، جیسا کہ ہابیل کی قربانی کے قبول کی وجہ ان کا تقوی تھا ۔
قربانی کے قبول ہونے اور مردود ہونے کے بعد عالم بشریت میں سب سے پہلی جنگ واقع ہوئی اور قابیل نے اپنے بھائی کو دھمکی دی کہ میں تمہیں قتل کردوں گا ، آخر کار اسی بے تقوائی اور نفسانی وسوسوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا ” فَطَوَّعَتْ لَـهٝ نَفْسُهٝ قَتْلَ اَخِيْهِ فَقَتَلَـهٝ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ ؛ پھر اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا“ ۔ (۲) ۔
اگر چہ قربانی کرنا حضرت آدم کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے ،مثال کے طور پر یہ آیات جن کو گذشتہ امتوں میں اعمال کے طور پر انجام دیا جاتا تھا ، قرآن کریم نے سورہ حج کی ۳۴ ویں اور ۶۷ ویں آیت میں ذکر کیا ہے” وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْـمَ اللّـٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُـمْ مِّنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۗ فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَـهٝٓ اَسْلِمُوْا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ ؛ اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (۳) اور ” لِّكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُـمْ نَاسِكُـوْهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِى الْاَمْرِ ۚ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ۖ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْـمٍ ؛ ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں “ (۴) ، جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں”منسک“ سے مراد قربانی ہے (۵) ۔ ۳۴ ویں آیت بھی اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رایج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: مجمع البیان ، طبرسی ، ج ۳ و ۴ ، ص ۲۸۳؛ و روح المعانی ، ج ۴، جزء ۶ ، ص ۱۶۳
۲: قران کریم ، سورہ مائدہ ، آیت ۳۰ ۔
۳: قران کریم ، سورہ حج ، آیت ۳۴ ۔
۴: قران کریم ، سورہ حج، آیت ۶۷ ۔
۵: مجمع البیان ، ج ۷ و ۸ ، ص ۱۵۰ ؛ و معالم التنزیل ، بغوی، ج ۳ ، ص ۳۵۰ ۔
Add new comment