امام خمینی(رہ) مسلم دانشورں کی نگاہ میں(۹)

Fri, 06/07/2024 - 11:06

گذشتہ سے پیوستہ

حضرت امام خمینی(رہ)  ہمیشہ ادب و اخلاق کے ساتھ بات کرتے تھے لیکن انھوں ان خطوط میں اپنا موقف بالکل صاف طور پر اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا۔ امام خمینی(رہ) نے اپنا یہ جذبہ توکل، خون کی مانند قوم کی رگوں میں بھی جاری کر دیا۔ عوام کے اندر بھی توکل علی اللہ کا جذبہ موجزن ہو گیا۔ سب کو الہ تعالی کی مدد پر یقین ہو گیا۔ پورا ملک اس راستے پر چل پڑا۔ چونکہ امام خمینی(رہ) کو مستکبرین پر کوئی اعتماد اور یقین نہیں تھا اس لئے وہ ان کے وعدوں پر کبھی توجہ نہیں دیتے تھے۔ امریکی صدر ریگن نے جو بہت طاقتور صدر تھے، حضرت امام خمینی (رہ) کو خط لکھا، پیغام بھیجا، ایلچی بھیجا، مگرحضرت امام خمینی(رہ)  نے کوئی اعتنا نہ کی۔ ریگن کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ جو وعدہ ریگن نے کیا تھا امام خمینی نے بالکل اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا۔

ایک اور موقع پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں امریکہ کی اتحادی ایک حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ سیکڑوں ارب یا ایک ہزار ارب ڈالر کا معاملہ تھا، مگر امام خمینی (رہ) نے اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی، بالکل اعتماد نہیں کیا۔ آج ہم در پیش معاملات میں خود بھی اس چیز کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہماری سمجھ میں آ رہا ہے کہ کیوں مستکبرین پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ وہ نجی ملاقاتوں میں جو کچھ کہتے ہیں اس پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، یہ چیز ہم باقاعدہ محسوس کر رہے ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے اسے اپنے مکتب فکر کے بنیادی اصولوں میں قرار دیا؛ اللہ پر توکل مستکبرین کے سلسلے میں عدم اعتماد۔ البتہ یہ دنیا سے قطع تعلق کر لینے کے معنی میں بھی نہیں تھا۔ کیونکہ دنیا کے حکام مختلف مناسبتوں پرحضرت امام خمینی (رہ) کو تہنیتی پیغام بھیجتے تھے اور آپ ان پیغامات کا جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح کا معمول کی حد کا محترمانہ اور مودبانہ رابطہ بھی تھا مگر استکباری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں پر کوئی اعتماد نہیں کرتے تھے۔

سوم؛ حضرت امام خمینی (رہ) کا عوام کی قوت ارادی اور عوامی توانائی پر تکیہ کرنا اور حکومتوں سے امید لگانے کی مخالفت۔ یہ امام خمینی کی تحریک کا اہم اصول ہے۔ ان دنوں ایک غلط نظرئے کی بنیاد پر یہ کوشش ہو رہی تھی کہ ملک کے تمام اقتصادی امور حکومت کے سپرد کر دیئے جائیں، لیکن امام خمینی (رہ) بار بار انتباہ دے رہے تھے۔ یہ انتباہ آپ کی تقاریر اور بیانوں میں واضح طور پر موجود ہے؛ ان امور کو عوام کے سپرد کر دیجئے۔ انھیں عوام پر بڑا اعتماد تھا۔ اقتصادی مسائل میں بھی عوام پر بہت بھروسہ تھا اور دفاعی میدان میں بھی عوام پر انھیں بہت اعتماد تھا۔ اس پر سب توجہ دیں؛ امام خمینی (رہ)  روز اول سے فوج کے پشت پناہ رہے، جس شخصیت نے فوج کو منحل ہونے سے بچایا وہ امام خمینی (رہ)  کی ذات تھی۔ مگر اس کے باوجود آپ نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو تشکیل دیا، رضاکار فورس کو تشکیل دیا۔ دفاعی شعبے کو عوامی شعبہ بنا دیا۔ اقتصادی مسائل میں عوام پر تکیہ، دفاعی شعبے میں عوام پر اعتماد، تعمیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ جس کے تحت تعمیراتی جہاد شروع کیا گيا، تبلیغاتی شعبے میں عوام پر بھروسہ اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتخابات کا مسئلہ اور ملک اور سیاسی نظام کو چلانے میں عوام کی رائے اور ووٹوں پر اعتماد۔ ہمارے عظیم رہنما کی حاکمیت کا زمانہ دس سال کا ہے، دس سال کی اس مدت میں سے آٹھ سال تک جنگ رہی۔ شہروں پر بمباری ہو رہی تھی، تمام محاذوں پر جنگ جاری تھی۔ مگر اس دوران ملک میں تقریبا دس انتخابات ہوئے۔ کوئي بھی الیکشن اپنی معینہ تاریخ سے ایک دن بھی تاخیر سے نہیں ہوا۔ تمام مراحل میں، ہر طرح کے حالات میں حضرت امام خمینی (رہ) کی یہ تاکید رہی کہ انتخابات معینہ وقت پر ہوں۔ بعض ملکوں میں یہ دستور ہے کہ ایمرجنسی کا اعلان کر دیتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 69