قربانی کا مقصد خدا کی عبودیت، ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے ، قربانی حج کے اعمال کا حصہ ہے ، قربانی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ، خداوند عالم سے نزدیک اور تقرب حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔
عربی زبان میں قربانی کو ”اضیحہ“ کہتے ہیں (المعجم الفارسی الکبیر ، ج ۳، ص ۲۰۸۵، لفظ قربانی کے ذیل میں) لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس میں قربانی کی جاتی ہے اسے عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو عیدالاضحی (بقرعید کے روز) بارہویں یاتیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یا نحر کیا جاتا ہے ۔ (۱) ۔
اگر چہ بعض علماء نے قربانی کے معنی میں مستحب ہونے کی قید کو بھی ذکر کیا ہے تاکہ واجب قربانی کو شامل نہ ہوسکے ۔ (۲) ۔
قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی اس معنی سے بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں جو معنی ہم نے ذکر کئے ہیں اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے، اسی طرح حج کے زمانہ ، منی اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کیلئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔
قرآن کریم میں ان تمام معانی کو بدن، بھیمةالانعام، قلائد، منسک ، ھدی اور نحر وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں ۔
قربانی کی تاریخ
خداوند عالم نے آدم کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میں ہمیں بہت سے عبرت آموز ، فائدہ من سبق حاصل ہوتے ہیں ” وَاتْلُ عَلَيْـهِـمْ نَبَاَ ابْنَىْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِۖ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّـٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ؛ اور پیغمبر علیہ السّلام آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا قصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے “ ۔ (۳) ۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی ۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ خارج میں واقع ہوا ہے اورحضرت آدم کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: الحدائق الناضرة، ج ۱۷، ص ۱۹۹ ؛ جواہر الکلام ، ج ۱۹ ، ص ۲۱۹ ۔
۲: الموسوعة الفقہیة المیسرة ، ج ۳، ص ۴۲۰ ۔
۳: قران کریم ، سورہ مائدہ ، آیت ۲۷ ۔
Add new comment