قربانی، حضرت ابراہیم کی عظیم یادگار (۱)

Sun, 06/16/2024 - 16:06

تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خدا ئے وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت، ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے. مناسک حج کے بہت سے اعمال ہیں جن میں سے ایک قربانی ہے ، جیسا کہ قربانی کے نام سے واضح  ہے کہ قربانی، خداوندعالم سے نزدیکی اور تقرب حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے ۔

عربی زبان میں قربانی کو ”اضحیہ“ کہتے ہیں  لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس دن کی قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو بقرعید کے روز ذبح یا نحر کرتے ہیں۔ قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ،اسی طرح حج کے زمانے ، منی اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔

حضرت آدم علیہ السلما کے بیٹوں کے قربانی کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے، اگر چہ قربانی کرنا حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے۔ قرآن کریم نے سورہ حج کی چونتیسویں آیت میں فرماتا ہے ” اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں اور تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو ، پھر سورہ حج ہی کی سڑ سٹھویں آیت میں ارشاد قدرت ہوتا ہے کہ ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کر رہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ صراط مستقیم پر ہیں جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ان آیات سے مراد قربانی ہے  یعنی جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رائج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔

قرآن کریم کے مطابق بعض قومیں اپنے بچوں کوذبح اور قربان کیا کرتی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس عمل کو منسوخ کرنے کے لئے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے بڑھے پھر جب وہ ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے  پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا تا کہ اسماعیل کو قربان کریں کہ حکم خدا سے دنبہ آجاتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام  اسماعیل کے بجائے دنبہ کو ذبح کردیتے ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66