امام مہدی (عج) مختلف ادیان میں

Mon, 06/03/2024 - 10:21

حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (ارواحنا فداہ ) ، منجی آخر الزمان کے بارے میں تمام ابراہیمی ادیان کا اتفاق ہے کہ ایسی ہستی آئے گی جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو نجات دلائے گی، اس بات کو تمام ابراہیمی ادیان مانتے ہیں ، اسلام میں اس منجی کا نام بھی واضح ہوگیا ہے؛ اس غیر معمولی، اس عظیم اور الہی انسان کو تمام اسلامی مذاہب حضرت مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں شاید اسلامی فرقوں میں کوئی ایسا فرقہ موجود نہ ہو جس کا اس بات پر اعتقاد نہ ہو کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے اور وہ پیغمبر اسلام کی اولاد میں سے ہیں حتی ان کا نام اور کنیت بھی واضح ہے اس سلسلے میں شیعہ اعتقاد میں ایک خاص خصوصیت موجود ہے کہ وہ اس شخصیت کو خاص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور اس کو آئمہ اہلبیت (ع) میں سے گیارہویں امام ،حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتے ہیں۔ ان کی ولادت کی تاریخ شیعہ مؤرخین اور شیعہ متکلمین نے واضح طور پر بیان کی ہے؛دوسرے اسلامی فرقوں نے اس نظریہ کو بیان نہیں کیا ہے یا قبول نہیں کیا ہے لیکن شیعہ قطعی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ  امام مہدی (عج) کے وجود اور ولادت کو ثابت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے استبعاد کیا ہے  اور بعید سمجھا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ انسان پیدا ہواور اتنے طولانی عرصہ تک زندہ رہے ، یہ واحد استبعاد اور اشکال ہے جسے مخالفین نے حضرت مہدی (عج) کے وجود کے بارے میں بیان کیا ہے اور اس کا بار بار تکرار کیا ہے؛  لیکن قرآن کریم خود اس استبعاد اور اشکال کو اپنی صریح نص کے ساتھ برطرف کرتا ہے۔ حضرت نوح پیغمبر (علیہ السلام ) کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: فَلَبِثَ فیهِم اَلفَ سَنَةٍ اِلّا خَمسینَ عامًا؛ (۱) یعنی حضرت نوح نے اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال زندگی کی ہے نہ یہ کہ ان کی عمر اتنی تھی بظاہر معنی یہ ہے کہ حضرت نوح کی تبلیغی مدت اتنی تھی ؛ لہذا اس استبعاد اور اشکال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

شیعوں کے درمیان اس اعتقاد کی سب سے بڑی خاصیت امید آفرینی ہے۔ شیعہ معاشرہ صرف ماضی میں اپنے ممتاز کارناموں پر متکی نہیں ہے ، بلکہ اس کی مستقبل پر بھی نظر ہے شیعہ عقیدے کے مطابق مہدویت کے مسئلہ پر اعتقاد رکھنے والا شخص  سخت ترین شرائط میں بھی  دل کو امید سے خالی نہیں سمجھتا، اس امید کا نور ہمیشہ موجود ہے ؛ وہ جانتا ہے کہ یہ تاریکی و ظلمت کا دورہ ، یہ ظلم و ستم کا دور یہ باطل اور ناحق تسلط پسندی کا دورہ یقینی طور پر ختم ہوجائے گا ، اس اعتقاد کے یہ سب سے اہم نتائج اور آثار ہیں ، البتہ مہدویت کے بارے میں شیعوں کا اعتقاد یہیں تک محدود نہیں ہوتا ہے: بِیُمنِهِ رُزِقَ الوَری‌ وَ بِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الأرضُ و السَّماء ۔ (۲)

مہدویت پر اعتقاد کا مسئلہ ایک ایسی اہمیت کا حامل ہے ، یہ درخشاں اور فروزاں شعلہ، شیعہ معاشرے میں گذشتہ صدیوں میں بھی موجود رہا ہے اور اسی طرح موجود رہے گا اور انشاء اللہ منتظرین کے انتظار کا دور ختم ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ :

۱: قران کریم ، سورہ عنکبوت ، ایت ۱۴ ۔

۲: : اصول كافی ، ج ۱ ص۱۷۷ ؛ و مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج ۲۳ ص ۳۸ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 104