گذشتہ سے پیوستہ
ایسے گمراہ کن عقائد کے پیش نظر امام جعفر صادق علیہ السلام نے ٹھوس عقلی دلائل کے ذریعے ان شکوک و شبہات کا جواب دینا شروع کردیا ، دنیا یا آخرت میں خدا کو دیکھنے کا مسئلہ جلد ہی مسلمانوں میں سب سے زیادہ زیر بحث مسائل میں سے ایک بن گیا ، بعض حلقوں کی جانب سے آیات قرآن کریم کی ظاہری تفسیر انجام پانے کے بعد مختلف آراء سامنے آئیں ، امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کی تشریح یوں فرمائی: " آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں لیکن دل ایمان کی حقیقت سے اسے پا لیتا ہے ، خدا کو ظاہری نگاہوں سے دیکھا نہیں جاسکتا اور اس کا عام انسانوں سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا وہ بغیر تشبیہ کے جانا جاتا " قضا و قدر الہی اور انسان کا با اختیار یا بے اختیار ہونا بھی ان مسائل میں سے ایک تھا جو مسلمانوں میں مختلف مذہبی فرقوں کی پیدائش کا باعث بنے ، امام جعفر صادق علیہ السلام نے حدیث شریف "لا جبر و لا تفویض بل امر بین الامرین" بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح میں فرمایا: "جب کوئی شخص گناہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور تم اسے منع کرو اور پھر اسے اپنے حال پر چھوڑ دو اور وہ گناہ کا ارتکاب کرے تو تمہارا اسے اپنے حال پر چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ تم نے اسے گناہ کرنے کا حکم دیا ہے" ۔
۳: ماہر شاگردوں کی پرورش
یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک اور اقدام تھا ، آپ علیہ السلام اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے لہذا انہیں ان کی فہم و فراست کے مطابق خاص علمی شعبے کی تعلیم فراہم کرتے تھے۔
۴: امام جعفر صادق علیہ السلام کے علمی مناظرے
امام جعفر صادق علیہ السلام کے علمی مناظروں نے منحرف عقائد سے مقابلے اور موجودہ عقائد کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا ، آپ علیہ السلام ہمیشہ مختلف فرقوں اور مذاہب کے مفکرین اور سربراہان کی جانب سے علمی مناظروں کی دعوت کا خیر مقدم کیا کرتے تھے کیونکہ اس طرح نہ صرف منحرف عقائد کا بطلان واضح ہوجاتا تھا بلکہ تاریخ میں ان علمی مناظرے کے ثبت ہوجانے کے باعث دوسرے افراد بھی اس سے بہرہ مند ہو سکتے تھے ، یوں مسلمانوں کے درمیان علمی مکالمے اور مناظرے کا درست اور مطلوبہ انداز تشکیل پایا اور اس نے ایک خاص مقام حاصل کر لیا ، علمی مناظرات میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا طریقہ کار بہت اہم ہے ، امام علیہ السلام کی باریک بینی، متانت اور فہم و فراست ایسی تھی کہ حتی مخالفین بھی اس کی تعریف کرتے تھے ، آپ علیہ السلام مد مقابل کے قبول کردہ مسائل کی بنیاد پر دلیل پیش کرتے اور یہ دلیل اتنی مضبوط ہوتی کہ مد مقابل اپنی رائے کے باطل ہونے کا اعتراف کرنے اور امام علیہ السلام کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہوجاتا۔
جاری ہے ۔۔۔۔
Add new comment