سیر سلوک کی دنیا میں خداوند متعال کی جانب اخری فرار یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو خدا کے علاوہ کوئی اور اس کے دل پر مسلط اور حاکم ہوجائے ، اسے عرفاء کی اصطلاح میں خدا کے اندر فنا ہوجانا یا لقاء اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے چونکہ سیر و سلوک کرنے والا انسان اس مرحلہ میں خدا کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھتا ، اسی لئے اسے لقاء اللہ یا فنا فی اللہ کا مرحلہ اور مقام بتایا جاتا ہے ، فقط اس مرحلہ اور منزل میں اکر دل کی انکھوں سے سالک کو خدا کا دیدار نصیب ہوتا ہے ، فارسی زبان شاعر مولانا نے کیا خوب کہا:
خلقی که خواهند آمدن از نسل آدم بعد ازین
جان های ایشان بهر تو هم در فنا پا کوفته
اندر خراباتِ فنا شاهنشهانِ محتشم
هم بی کُلَه سرور شده هم بی قبا پا کوفته
مولانا (۱)
جب تمام خوف و ڈر سے فرار ہوکر خدا کی بارگاہ میں پناہ لی تو درحقیقت «مقرّبین» بارگاہ خداوند متعال میں سے ہوگیا ، اس مرحلہ میں اس کے لئے اسباب و علل کی جانب توجہ اور مسبب الاسباب سے غفلت بھی ایک قسم کی لغزش شمار کی جاتی ہے جبکہ سیر و سلوک کی ابتدائی منزل یا درمیانی منزل میں رہنے والے افراد کے لئے یہ گناہ و لغزش و خطا نہیں ہے ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مولانا ، دیوان شمس ، غزلیات ، غزل شمارهٔ ۲۲۷۶ ۔
Add new comment