مناجات شعبانیہ کی شرح؛ چوتھی قسط

Sat, 02/24/2024 - 12:04

گذشتہ سے پیوستہ

 ب: خداوند متعال دو طرح سے سنتا ہے ، ایک چونکہ وہ «سمیع» ہے اور تمام اوازوں ، سرگوشیوں اور صداؤں کو سنتا ہے اور دوسرے یہ کہ خداوند متعال سنتا ہے تاکہ ہم پر عنایت کرسکے، تاکہ ہماری دعاوں کو مستجاب  کرے اور ہماری فریادوں کی داد رسی کرے ، اس طرح کی سماعتوں کو خاص سماعت کا نام دیا جاتا ہے ، امام علیہ السلام بھی دعا میں خدا سے یہ درخواست فرما رہے ہیں کہ خدایا ! میری اواز کو توجہ اور اپنی عنایت کے ساتھ سن تاکہ میری دعا قبول اور مستجاب کرلے ۔  

ہماری اس بات اور مدعی پر دلیل یہ جملہ ہے کہ فرمایا: «وَ اَقْبِلْ عَلَیَّ اِذا ناجَیْتُک؛ خدایا! میری طرف رخ کر اور توجہ فرما جس وقت میں تجھ سے فریادی اور تیری بارگاہ میں مناجات کرتا ہوں» «فَقَدْ هَرَبْتُ اِلَیْک؛ یقینا تیری جانب بھاگ کر ایا ہوں» ۔ (۱)

کسی چیز سے فرار اس سے خوف اور ڈر کی نشانی ہے ، امام علیہ السلام نے اس جملہ میں غیر خدا سے اپنے دل میں موجود خوف کی جانب اشارہ فرمایا ہے اور نتیجہ میں مناجات و دعا کے سایہ میں چین و سکون ملنے کی جانب اشارہ کیا کیوں کہ گناہ ، الودگی اور کفر کے زیر سایہ انجام پانے والے اعمال و افعال ، ظالمانہ اور وحشتناک ہیں کہ خداوند متعال نے انہیں تاریکی اور اندیھرے سے تعبیر کیا ہے ۔

قرآن کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے: «أَوْ کَظُلُماتٍ فی بَحْرٍ لُجِّیِّ یَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌبَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ إِذا أَخْرَجَ یَدَهُ لَمْ یَکَدْ یَراها وَ مَنْ لَمْ یَجْعَلِ اللّهُ لَهُ نُورًا فَما لَهُ مِنْ نُورٍ ؛ یا ان اعمال کی مثال اس گہرے دریا کی تاریکیوں کی ہے جسے ایک کے اوپر ایک لہر ڈھانک لے اور اس کے اوپر تہ بہ تہ بادل بھی ہوں کہ جب وہ اپنے ہاتھ کو نکالے تو تاریکی کی بنا پر کچھ نظر نہ آئے اور جس کے لئے خدا نور نہ قرار دے اس کے لئے کوئی نور نہیں ہے » ۔ (۲)

 

از هر طرف که رفتم جز وحشتم نیفزود

زنهار از این بیابان وین راهِ بی نهایت

 

در این شب سیاهم گم گشت راهِ مقصود        

از گوشه ای برون آی ای کوکب هدایت

                                         حافظ (۳)

سیر و سلوک کی راہ میں قدم رکھنے والے انسان کے لئے یعنی جس نے « غیر خدا سے فرار» اختیار کیا ہے اور اس راہ میں قدم رکھا ہے ، گناہوں اور کفر امیز اعمال سے دوری اپنائی ہے ، یہ عمل سیر و سلوک کی راہ میں پہلا قدم ہے ، وہ جس قدر بھی اس راہ میں سیر کرے گا ان منزلوں تک پہنچے گا جس کی ابتداء دشوار ، سخت اور خوفناک اور اس کا درمیانی راستہ مزید خطرات سے بھرا ہوا ہے لہذا وہاں سے فرار اور بھاگنا بھتر و مناسب ہے کیوں کہ بیچ راستہ میں رکنا مناسب نہیں لہذا مولا نے فرمایا خدایا ! میں بھاگ کر ، فرار ہوکر تیری جانب ایا ہوں ۔  (۴)

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: مناجات شعبانیہ کے فقرے

۲: قران کریم ، سورہ نورم ایت ۴۰ ۔

۳: غزلیات حافظ ، غزل شمارهٔ ۹۴ ۔

۴: https://hawzah.net/fa/Magazine/View/5764/6748/80595/

 

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 101