گذشتہ سے پیوستہ
اس بات پر گواہ اور دلیل «حسين ابن قياما واسطى» کا اعتراض ہے اور امام ہشتم علی رضا علیہ السلام کا اسے جواب ہے ، «ابن قياما» کہ جو مذھب «واقفيه» کے رہبروں میں سے تھا اس نے اٹھویں امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو خط لکھا اور اپ پر تہمت لگائی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امام رہو جبکہ تمھارے کوئی بیٹا نہیں ہے ؟
امام علی رضا علیہ السلام نے اس کے جواب میں اسے تحریر کیا کہ تمہیں کیسے معلوم کہ مجھے اولاد نہ ہوگی ، خدا کی قسم کچھ دن نہ گزریں گے کہ خدا مجھے بیٹا عطا کرے گا جو حق کو باطل سے جدا کر دے گا ۔ (1)
«حسين ابن قياما» اور اس کے ماننے والوں کی طرف سے پروپگنڈے کا یہ طریقہ اور سسٹم فقط اسی مورد سے مخصوص نہ تھا بلکہ وہ لوگ مختلف مناسبتوں اور مقامات پر اس بات کی تکرار کرتے تھے اور امام رضا علیہ السلام بھی مختلف دلیلوں اور گفتگو میں ان کے دعوے کو رد کردیتے تھے ، (2) یہاں تک امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور تمام زہریلی فضا کا خاتمہ ہوگیا ، امام رضا علیہ السلام اور شیعہ جو مشکلات و سختیوں سے روبرو تھے ، کو تقویت ملی اور منکرین کے سامنے شیعت کا چہرہ درخشندہ و تابندہ ہوگیا ۔ (3)
واقفیہ اور اہل بیت اطھار علیہم السلام کے دشمنوں کا اس سلسلہ میں وسوسہ اور پروپگنڈہ اس قدر زیادہ تھا کہ کچھ گستاخ اور تنگ نظر لوگ حتی امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت کے بعد بھی اسی شبھہ سے چپکے رہے اور امام علیہ السلام پر یہ تھمت لگائی کہ نعوذ باللہ امام محمد تقی علیہ السلام امام رضا علیہ السلام کے بیٹے نہیں ہیں ۔
وہ لوگ اسلامی احکامات و تعلیمات کے خلاف اس الزام تراشی میں اس قدر گر گئے تھے کہ باپ اور بیٹے کے چہرے کی رنگت میں فرق ہونے کی وجہ سے امام محمد تقی علیہ السلام کو امام رضا علیہ السلام کا بیٹا ماننے سے انکار کررہے تھے کیوں کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے چہرے کا رنگ گندمی رنگ تھا ، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان گندمی رنگت کا کوئی امام نہیں رہا ہے ، مگر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : وہ [امام محمد تقی علیہ السلام] میرے بیٹے ہیں ، پھر وہ لوگ کہنے لگے رسول خدا (ص) نے چہرہ پہچاننے والوں کے وسیلہ فیصلہ کیا ہے (4) ہم بھی چہرہ پہچاننے والوں کے وسیلہ فیصلہ کریں گے ، امام رضا علیہ السلام نے مجبور ہوکر فرمایا : تم لوگ اسے بلا لو مگر میں یہ کام نہیں کروں گا لیکن ان سے نہ کہنا کہ انہیں کس لئے بلایا ہے ۔
طے شدہ تاریخ کے تحت امام رضا علیہ السلام کے تمام بھائی ، بہن اور چچا وغیرہ ایک باغ میں بیٹھائے گئے اور امام رضا علیہ السلام بھی کسان کا کپڑا پہن کر باغ کے ایک گوشے میں مٹی کوڑنے میں مصروف ہوگئے کہ جیسے وہ باغبان ہوں اور اس گھرانے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
پھر امام محمد تقی علیہ السلام کو لایا گیا اور چہرہ پہچاننے والوں سے کہا گیا کہ حاضرین میں سے اس بچے باپ کون ہے ؟ انہوں نے بالاتفاق کہا کہ اس میں کوئی بھی ان کا باپ نہیں ہے اگر ان کا باپ کوئی ہوسکتا ہے تو وہ کسان ہے جو مٹھی کھند رہا ہے کیوں کہ دونوں کی پنڈلیاں ایک ہیں ، اسی وقت امام رضا علیہ السلام بھی وہیں تشریف لے ائے اور چہرہ شناسوں نے بالاتفاق کہا کہ ان کا باپ یہ انسان ہے ۔ (5)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: كلينى، اصول كافى، ج 1، ص 320؛ و طبرسى، اعلام الورى، ص 346 ۔
2: اختيار معرفۃ الرجال (معروف به رجال كشّى)، ص 553، حديث شماره 1045 ۔
3: قزوينى، سيد كاظم، الامام الجواد من المهد اًّلى اللحد، الطبعه الأولى، ص337 ۔
4: مقّرم، سيد عبدالرزاق، نكاهى گذرا بر زندگانى امام جواد(عليه السلام)، ص 35 ۔
5: كلينى، اصول كافى، ج 1، ص 322؛ و مقرّم، سيد عبدالرزّاق، نگاهى گذرا بر زندگانى امام جواد(عليه السلام)، ص 36 ؛ و ابن شهر آشوب، مناقب آل أبى طالب، ج 4، ص 387؛ و الطبرى، محمد بن جرير بن رستم، دلائل الامامه، ص 201 – 204 ۔
Add new comment