سانحہ کا کربلا ، تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کا اہم باب اور سانحہ ہے ، اس حسینی انقلاب پر مختلف زاویہ سے تحقیقات تحریر کی گئی ہیں اور گفتگو ہوئی ہے ، اس تحریک نے جہاں حق کو باطل سے جدا کردیا اور سوئے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کردیا وہیں اموی خاندان کی چند سالہ تبلیغات اور ان کے پروپگنڈے پر پانی پھر دیا ۔
یوں تو تاریخ میں بہت سارے انقلابات رونما ہوئے اور بہت سارے لوگوں نے انقلاب پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموش کردئے گئے لیکن تحریک عاشوراء ایک ایسی تحریک ہے جو ۱۴۰۰ سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک کی بقا اور جاودانگی میں جس شخصیت کا اہم اور بے مثال کردار ہے وہ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی شخصیت ہے جیسا کہ فارسی کے زبان شاعر نے کیا خوب کہا :
سر نی در نینوا می ماند اگر زینب نبود
کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود
اپ وہی بی بی ہیں جو دنیا کی بے مثال خواتین کا حصہ اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا و حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کی اغوش کی پروردہ ہیں ، وہ بی بی جس نے بچپن میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ، نانا کا جنازہ چھوڑ کر مسلمانوں کو سقیفہ میں منافقت کرتے دیکھا ، بابا کے حق کو غصب ہوتے دیکھا ، علی مرتضی علیہ السلام کے گلے میں رسیوں کا پھندا دیکھا اور انہیں مدینہ کی گلیوں میں کشاں کشاں لے جاتے دیکھا ، اماں کو گھنٹوں دربار میں اپنے قدموں پر کھڑا دیکھا ، ان کے رخسار پر ظالم کے طمانچے دیکھے، گھر کے دروازے پر اگ اور لکڑیوں کا یہجوم دیکھا ، ماں کا زخمی اور شکستہ پہلو دیکھا تو بھیا محسن کی شھادت کی فریاد سنی ۔ «آهِ يَا فِضَّةُ إِلَيْكِ فَخُذِينِي! فَقَدْ وَ اللَّهِ قُتِلَ مَا فِي أَحْشَائِي مِنْ حَمْل» ۔ (۱)
حضرت زینب علیها السلام کی ولادت
اپ ۵ جمادی الاول سن ۵ ہجری قمری کو خاندان رسالت و امامت میں پیدا ہوئیں ، رسم یہ تھی کہ بچوں کا نام خاندان کے بزرگ رکھتے تھے ، (۲) لہذا اپ کی ولادت کے بعد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے انہیں امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد کیا تاکہ ان کا نام رکھیں ، امام علی علیہ السلام نے فرمایا میں اس کام میں مرسل اعظم صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر سبقت نہیں لوں گا ۔ (۳)
رسول خدا(ص) اس وقت سفر پر تھے جب واپس لوٹ تو معمول کے مطابق سب سے پہلے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بیت الشرف تشریف لے گئے ، امام علی علیہ السلام نے جناب زینب سلام اللہ علیہا کا نام رکھنے کی درخواست کی تو انحضرت (ص) نے فرمایا میں خود کو خدا پر فوقیت نہیں دوں گا کہ ناگہاں جبرئیل امین نازل ہوئے اور فرمایا خدا نے اس بچی کا نام «زینب» رکھا ہے ، (۴) اور اسے لوح محفوظ میں تحریر فرمایا ہے ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مجلسی ، محمد باقر، بحارالأنوار، ج۲، ص۲۹۳ ۔
۲: محمّد محمّدی اشتهاردی، حضرت زینب فروغ تابان کوثر، ص ۱۷۔
۳: سید کاظم ارفع، حضرت زینب(علیها السلام) سیره عملی اهلبیت، ص ۷۔
۴: باقر شریف القرشی، السیده زینب، ص ۳۰ـ۳۱ ؛ و حسن الهی، زینب کبری عقیله بنی هاشم، ص ۲۹۔
۵: جعفر النقدی، زینب الکبری بنت الامام، النجف الاشرف، المکتبة الحیدریه، ص ۲۱ ؛ و سید نورالدین جزائری، خصائص الزینبیه، ترجمه باقر ناصری، ص ۶۰۔
Add new comment