گذشتہ سے پیوستہ
قران نے بھی جس مقام پر باپ کو خاص معنی میں استعمال کیا ہے وہاں لفظ ’’والد‘‘ کا استعمال کیا ہے اور بچے کو ’’مولود‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، لہذا میری تحریر میں بھی باپ سے مراد وہ حقیقی باپ ہے جسے قران نے ’’والد‘‘ کے لقب سے نوازا ہے اور بچے کی ولادت کی بنیاد ہے ، یوں تو روایت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور امیرالمومنین علی ابن طالب علیہما السلام کو بھی مومنین باپ بتایا گیا ہے ، «أَنَا وَ عَلِيٌّ أَبَوَا هَذِهِ اَلْأُمَّةِ ؛ ہم اور علی اس امت کے باپ ہیں» ۔ (۱) اور راغب اصفھانی نے چچا اور داد کو ’’اب‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ (۲)
سورہ احزاب کی تیسری اور چوتھی ایت کریمہ میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حقیقی باپ کی جانب منسوب کریں اور غیر حقیقی باپ کی جانب نسبت دینے سے پرھیز کریں ، اسی سورہ کی پانچویں ایت میں جان بوجھ کر دوسرے کی جانب باپ اور والد کی نسبت جرم بتایا اور مسلمانوں کو اس طرح کے عمل سے دور رہنے کی تاکید کی ۔ « ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ؛ ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ہو تو یہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور تمہارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ہوگئی ہے البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ہو جو تمہارے دلوں سے قصداانجام دی ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے» (۳) یعنی قران کریم کی رو سے بہترین طریقہ ، بہترین اخلاق اور قانونی عمل یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے حقیقی باپ کی جانب منسوب کیا جائے کسی دوسرے کی جانب منسوب کرنا ظالمانہ طور طریقہ اور عدالت کے برخلاف ہے ۔
خداوند متعال نے اسی بات کو جامعہ عمل پہنانے کی غرض سے زید کی ولدیت رسول خدا (ص) سے کی جانب منسوب نہ ہونے دیا بلکہ انہیں زید بن حارثہ کے خطاب پر باقی رہنے دیا تاکہ لوگوں کے درمیان یہ ثقافت اور کلچر رائج ہوسکے اور وہ غیر حقیقی باپ کو باپ کی جگہ نہ دیں ۔ (۴)
دوسری طرف رسول خدا (ص) نے زید کی اھلیہ سے عقد کیا تاکہ لوگوں کے نزدیک یہ بات بھی ثابت ہوجائے کہ اسلام کی نگاہ میں منھ بولے اور غیر حقیقی بیٹے کی بیوی سے عقد اور شادی کرنا حرام و ناجائز عمل نہیں ہے ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: بحرانی ، سید هاشم ، البرهان في تفسير القرآن ، ج۲، ص۷۷ ۔
۲: راغب اصفهانی ، حسین بن محمد ، مفردات الفاظ القران ، ص۵۷ ۔
۳: قران کریم ، سورہ احزاب ، ایت ۵ ۔
۴: قران کریم ، سورہ احزاب ، ایت ۴۰ ؛ و طبرسی ، فضل بن حسن ، مجمع البیان، ج۷ و ۸ ، ص۵۲۷ ۔
۵: طبرسی ، فضل بن حسن ، مجمع البیان ، ج۷ و ۸ ، ص۵۶۶ ۔
Add new comment