اسلام اور قران کریم کی نگاہ میں ماں اور باپ کا خاص مقام و مرتبہ اور منزلت ہے ، خداوند متعال نے قران کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے بعد ماں اور باپ کی اطاعت واجب قرار دیا اور کہا: «وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ؛ اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ہے کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ... کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو کہ تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے» ۔ (۱) یا دوسرے مقام پر یوں فرمایا: «وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ؛ اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار اُن دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے» ۔ (۲)
مغربی دنیا اج جس ناسور سے روبرو ہے اور نہایت افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ اہستہ اہستہ مشرقی دنیا بھی اس بیماری کا شکار ہوتی جا رہی ہے وہ ماں باپ کی ناقدری اور ان کی بے احترامی ہے ، ایسے دور میں یوم پدر کے موقع پر باپ کی منزلتوں اور ان کے مرتبہ کے بعض گوشہ کی جانب اشارہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
باپ، قرآنی تعلیمات کی نگاہ میں
باپ کہ جنہیں عربی زبان میں ’’والد‘‘ کہا جاتا ہے وہ شخصیت ہے جو اپنی اولاد اور اپنے بچے کی خلقت اور اس کے دنیا میں آنے کا وسیلہ اور سبب ہے ، عربی زبان میں باپ کے لئے دو لفظوں کا استعمال ہوا ہے ، ایک ’’والد‘‘ اور دوسرے ’’اب‘‘ ۔ لیکن دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے کیوں کہ ’’والد‘‘ اس شخص کا نام ہے جس کا خون بچے رگوں میں موجود ہے اور بچے کی خلقت اسی کے مرھون منت ہے مگر ’’اب‘‘ سرپرست اور ذمہ دار کے معنی میں ہے یعنی لفظ ’’والد‘‘ سے عام تر ہے ، جو والد کے سوا ’’چچا ، داد‘‘ وغیرہ کو بھی شامل اور اطلاق ہے ، اسی بنیاد پر حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے چچا ’’آزر‘‘ کو ’’اب‘‘ سے خطاب کیا ، «وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ لاِبیهِ آزَرَ أَ تَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً ؛ اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم علیھ السّلامنے اپنے مربی باپ ’’آزر‘‘ سے کہا کہ کیا تو ان بتوں کو خدا بنائے ہوئے ہے .میں تو تجھے اور تیری قوم کو کِھلی ہوئی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں» ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ لقمان ، ایت ۱۴ ۔
۲: قران کریم ، سورہ اسراء ، ایت ۲۴ ۔
۴: بحرانی ، سید هاشم ، البرهان في تفسير القرآن ، ج۲، ص۷۷ ۔
Add new comment