گذشتہ سے پیوستہ
غفرانمآب رح نے اخباریت کے خلاف محاذ کا آغاز اس وقت اخباریوں کی مایہ ناز کتاب ملا محمد امین محقق استر آبادی کی فوائد مدنیہ کے خلاف ایک کتاب لکھ کر کیا اور اس کتاب کا نام اساس الاصول رکھا تاکہ اصولی طریقہ کی اہمیت کو کتاب کے نام سے ہی واضح کرسکیں ان علماء کی کاوشوں کے بعد شیخ اعظم انصاری رح نے علم اصول فقہ کو بلندیوں تک پہونچایا اور آپ کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ اگر امین استرآبادی زندہ ہوتے تو اس اصول کو قبول کرتے (۱) ۔
شہید ثانی رح کے فرزند کی لکھی ہوئی کتاب معالم الاصول ، جو کہ در حقیقیت ایک گرانسنگ کتاب معالم الدین و ملاذالمجتہدین کا مقدمہ کے طور پر لکھی گئے تھی لیکن بعد میں اسے ایک مستقل کتاب کی حیثیت حاصل ہوئی اور ابھی تک علم اصول فقہ میں معالم کو ایک منفرد مسلم حیثیت حاصل ہے اور آج جبکہ تقریبا اس کتاب کی تدریس متروک ہوچکی ہے لیکن اکثر بزرگ علماء اس کتاب کو پڑھنے کی سفارش کرتے ہیں ، یہ کتاب صدیوں درس اور تدریس کا محور قرار پائی اور متعدد علماء نے اس کتاب پر حاشیہ لگایا اور شروح لکھیں نیز بزرگ علماء کے درس خاتج کا محور بھی یہی کتاب قرار پائی۔
صاحب قوانین میرزای قمی ؒ نے معالم کے بہت سے نظریات سے اختلاف کیا اور کچھ جدید نظریات اختیار کئے جناب غفرانمآب ؒ اور میرزای قمی ؒ کیانکہ ایک ہی استاد کے شاگرد تھے اور دونوں نے استاد الکل علامہ وحید بہبہانی کی حلقہ درس میں شرکت کی تھی لہذا جب غفرانمآب کے اواخر عمر میں قوانین کو آپ نے ملاحظہ کیا تو اس کے مضامین کا علمی جائزہ لینے کے لئے بھی آپ نے ایک کتاب جو منتہی الافکار کے نام سے جانی جاتی ہے اور یہ کتاب آپ کی علمی شخصیت کو اجاگر کرتی ہے۔
مرزا محمد بن عبدالنبی بن عبد الصائغ نیشا پوری اکبرآبادی جن کا تعلق برصغیر سے تھا اور جو اس وقت اخباریوں کی سرکردہ شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور اس دور میں برصغیر میں بھی اخباریت کے اثرات بہت زیادہ پائے جاتے تھے لہذا انہوں نے جب یہ دیکھا کہ غفرانمآب رح کی کتاب اساس الاصول نے برصغیر میں اخباریت کے پیکر پر بہت کاری ضرب لگائی ہے تو انہوں نے اساس الاصول کی رد میں معاول العقول لقلع اساس الاصول نام سے ایک کتاب لکھی تاکہ اخباریت کی بنیادوں کو مضبوط بناسکیں لیکن جناب غفرانمآب ؒ نے اپنے بعض شاگردوں کی طرف سے اس کا جواب مطارق کے نام سے تحریر فرمایا اور آخرکار جناب غفرانمآبؒ کے مساعی جمیلہ ، اخلاص اور ثبات قدمی کے باعث اخباریت کا چراغ برصغیر سے ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا اور اس کج فکری کی صالح علماء کے ہاتھوں اصلاح ہوگئی۔
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: اعتمادالسلطنه ، المآثر و الاثار ، ص۱۳۷ ؛ مدرس ، ریحانة الادب ج۱، ص۱۹۱- ۱۹۲ ؛ مدرسی طباطبایی ، مقدمهای بر فقه شیعه ، ص۶۱۔
Add new comment