گذشتہ سے پیوستہ
حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری نے آگے صہیونی افواج کے نقصانات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان سو دنوں میں میں تقریبا چار ہزار سے زیادہ صہیونی فوجی جسمانی اعتبار سے معذور ہوچکے ہیں اور یہ تعداد تیس ہزار سے زیادہ پہونچنے کا اندیشہ ہے۔
آگے آپ نے بحیرہ احمر میں یمنی افواج کے آپریشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : بحیرہ احمر میں جو اتفاقات رونما ہو رہے ہیں اس نے دشمن کے اقتصادی سیسٹم کو بہت بڑی چوٹ پہونچائی ہے نیز ان کا حقیقی چہرہ بھی دنیا کے سامنے کھل کر آگیا ہے ، جس طرح ہیگ کی عالمی عدالت کا جو واقعہ رونما ہوا اس میں فیصلہ سے قطع نظر ، غاصب ریاست اسرائیل دنیا کی نگاہوں کے سامنے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کے قتل عام کی مجرم قرار پائی اور اس بات کے لئے عدالت کے سامنے بہت مستحکم اور ناقابل تردید شواہد پیش کئے گئے ، یہ وہ مسئلہ تھا جس کی پہلے نظیر نہیں ملتی۔
حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری جناب سید حسن نصراللہ نے مزید تاکید فرمائی کہ مظلوموں کا بہتا ہوا خون اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ انہیں قربانیوں اور مظلوموں کے اسی بہتے ہوئے خون نے بنیادی اور اہم کامیابیاں عطا کیں۔
جنگ کو ۱۰۰ دن گذر چکے ہیں اور اس جنگ میں صہیونی دشمن کو سنگین نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے قیدیوں کو چھڑانے سے نا امید ہوچکا ہے نیز اسرائیل کے اندر موجود رائے عامہ جو پہلے جنگ کی حامی تھی دھیرے دھیرے جنگ کی حمایت سے دستبردار ہو رہی ہے۔
سید حسن نصراللہ صاحب نے اس کے بعد بنیامن نیتن یاہو کے خلاف غاصب ریاست میں جاری اعتراضات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید فرمائی : نیتن یاہو سے استعفے کی مانگ صہیونیوں کی جانب سے شکست قبول کرنے کے مترادف ہے ، اسی طرح گفتگو کے لئے بھی اس سرزمین پر کافی آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور اگر یہ مطالبات غزہ میں سیزفائر کے لئے ہوں تو اس کا مطلب ہے مقاومت کی شرائط کے سامنے تسلیم ہونا۔
اگر غزہ ، مغربی کنارے ، لبنان اور عراق میں جاری موجودہ صورت حال اور اقدامات جاری رہیں تو دشمن مقاومت کی شرائط ماننے پر مجبور ہوجائےگا ، اور دشمن کے سامنے مقاومت کی شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے اور اس کا مطلب ہے اس کامیابی کا حصول جس کا مقاوت نے وعدہ دیا تھا۔
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
Add new comment