سامراجیت امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں

Tue, 01/02/2024 - 08:33

استکبار، کبر سے بنا ہے اور لغت میں خود کو بڑا و بزرگ سمجھنا ، دوسروں پر خود کو برتر جاننا ، حقیقت کا نہ ماننا اور سرکشی کے معنی میں ہیں ۔ (۱)

یہ صفت انسان کے لئے نا پسندیدہ ہے اور قران کریم نے اس صفت کو خداوند متعال کی برتری اور بزرگی کے لئے استعمال کیا ہے:"هُوَ اللَّهُ الَّذی لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحانَ اللَّهِ عَمَّا یُشْرِکُونَ ؛ وہ اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ بادشاہ ، پاکیزہ صفات ،  بے عیب ، امان دینے والا ، نگرانی کرنے والا ، صاحبِ عزت، زبردست اور کبریائی کا مالک ہے - وہ ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے جو مشرکین کیا کرتے ہیں" ۔ (۲)

امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ’’ألْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِی لَبِسَ الْعِزَّ وَ الْکِبْرِیَاءَ; وَ اخْتَارَهُمَا لِنَفْسِهِ دُونَ خَلْقِهِ ؛ حمد و ثنا اس خدا کی ہے جس سے عزت و کبریائی مخصوص ہے اور اس کے علاوہ کوئی اس کا لائق نہیں‘‘۔ (۳)  

یہ صفت فقط و فقط خداوند متعال کے لئے مناسب اور پسندیدہ ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کے لئے غیرواقعی اور ناپسندیدہ ہے ۔  

کبر، تکبر اور استکبار تینوں صفات ایک ہی مفھوم ہے کہ اگر انسان میں یہ صفت موجود ہو تو اس مطلب یہ ہے کہ اس صفت کا مالک خدا کے بجائے خود اس مقام پر رکھنے کی کوشش کررہا ہے ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس سلسہ میں فرماتے ہیں: مستکبر اپنے غرور اور تکبر کی وجہ سے حکم خدا کے سامنے سرکشی سے کام لیتا ہے ۔ استکبار یعنی سامراجیت ، آمریت اور سرکشی ، اور یہ خداوند متعال کے روبرو استسلام و تسلیم ، اطاعت و پیروی اور انکساری کے برخلاف ہے ۔ (۴)

مستکبر اپنے غرور کی وجہ سے حقیقت کے مقابل آکھڑا ہوتا ہے ۔ غرور بدترین صفات میں سے ہے چونکہ غرور حقائق تک پہنچے کے تمام راستے بند کردیتا ہے اور انسان کو ضلالت و گمراہی کی دہانے پر لاکھڑا کرتا ہے ۔ (۵) شیطان جو سرکشوں اور مستکبروں کا رہبر و سربراہ ہے اس نے سرکشی کی وجہ سے ہی حکم خدا نہیں مانا اور حضرت ادم علیہ السلام کا سجدہ نہ کیا ۔

شیطان کا یہ عمل اور اس صفت درحقیقت حکم خدا کی مخالفت تھی مگر باطن میں حکم خدا کے مقابل سرکشی اور استکباریت سے مملو تھی ، شیطان کی یہی صفت اسے بارگاہ خداوندی سے نکالے جانے کا سبب بنی ، لہذا ہمیں آگاہ رہنا چاہئے کہ اس صفت کے سلسلہ میں شیطان کی ذات مورد نظر نہیں ہے بلکہ جو بھی اس صفت کو اپنائے گا اسے مردود بارگاہ ہونا پڑے گا ۔ (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: ابن منظور، لسان العرب، ج ۱۲ و۱۳؛  و دہخدا ، علی اکبر ، لغتنامہ دہخدا، ج ۲، ص۱۸۴۳؛ و سیاح، احمد ، فرہنگ بزرگ جامع نوین ، ج ۲ ، ص۱۶۸۵۔

۲: قران کریم ، سورہ حشر، ایت ۲۳۔

۳: نہج البلاغہ، خطبہ القاصعہ۱۹۲۔

۴: شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص ۳۹۸ ۔

۵: مکارم شیرازی ، تفسیر نمونہ، ج ۱۱، ص ۱۹۴۔

۶: آداب الصلاة، ۲۰۶ و ۲۳۵ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39