گذشتہ سے پیوستہ
ایرانی صدر مملکت آگے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : صہیونیوں نے گذشتہ دنوں میں فقط ویسٹ بینک کے علاقے میں ۲۰۰ افراد کو شہید کیا ہے جبکہ اس علاقہ میں رہنے والے عوام غزہ پر حملہ کے دعوے اور بہانے کے برخلاف مسلح بھی نہیں ہیں ، غزہ میں بھی عوام کا کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ غزہ کے لوگ صہیونی ریاست کے ذریعہ اپنے خلاف تباہی و بربادی ، عصمت دری ، تشدد ، قتل و غارت گری نہ دیکھتے ہوں۔
جناب ابراہیم رئیسی صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ : اگر ہم طوفان الاقصی آپریشن کے واقع ہونے کے عامل کو پہچنوانا چاہتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ اس آپریشن کا عامل اور سبب ۷۵ سال سے صہیونی ریاست کے ہولناک مظالم اور فلسطینی عوام کا اس حالت سے تنگ آجانا ہے ، کسی بھی قانونی شق کی رو سے غاصبانہ قبضہ کا برقرار رہنا قبضہ کو جائز نہیں ٹھہراتا اور قبضہ جمانے والے کو مالک بن جانے کا حق نہیں عطا کرتا بلکہ قبضہ ختم کرنے کا راہ حل ، قبضہ جمانے والے کی اس زمین سے بے دخل کرنا ، اسے سزا دینا نیز اسے نقصان کی بھرپائی پر مجبور کرنا ہے۔
صدر مملکت نے مزید تاکید کی کہ : اگر غاصبانہ قبضہ کو ۷۵ سال بھی گذر جائیں تب بھی قبضہ کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ، اور جو لوگ صہیونی ریاست کے قبضہ کو جائز ٹھہرانا چاہتے ہیں انہیں جواب دینا چاہئے کہ کس قانونی سیسٹم اور کس حقوقی نظام میں غاصبانہ قبضہ کا برقرار رکھنا قبضہ کو جائز ٹھہراتا ہے یا قابض کو مالک سمجھتا ہے۔
ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی صاحب مزید کہتے ہیں کہ : قانونی اور بین الاقوامی تمام معیارات کے مطابق ، دفاع ان لوگوں کا جائز حق ہے جو مورد ظلم قرار پائے ہیں اور ان کے گھروں و کاشانہ پر قبضہ جما لیا گیا ہے۔
اسی طرح آپ بیان کرتے ہیں کہ : اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی تشکیل کے ساتھ ہی امام خمینی رح کے اعلان کے مطابق ، عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلہ کو فلسطین اور قدس شریف کی آزادی قرار دیا۔
آپ نے تاکید کی کہ : قدس شریف کی آزادی کی حمایت نیز فلسطین کے مظلوم اور باصلابت لوگوں کا دفاع کرنا اسلامی جمہوری ایران کی قطعی سیاست ہے اور اپنے اس موقف کا اعلان صراحت کے ساتھ امام خمینی (رہ) رہبرمعظم انقلاب نیز ایرانی حکام کی جانب سے مسلسل بلند آواز اور بغیر کسی لکنت زبان کے ہوتا رہا ہے ، آپ نے اضافہ کیا کہ : امریکیوں نے بارہا کوشش کی کہ فلسطین کا مسٔلہ مذاکرات کی میز کے پیچھے حل کیا جائے لیکن صیہونی ریاست نے اوسلو، کیمپ ڈیوڈ اور شرم الشیخ جیسے ان معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کی جن کی پابندی کا اس نے وعدہ کیا تھا۔
ایرانی صدر مملکت نے وضاحت کی کہ : اسرئیلی ریاست نے کسی بھی قرارداد ، معاہدہ اور پیمان اور وعدے کی پابندی نہیں کی ہے اور اس کا وفادار نہیں رہا ہے نیز ۴۰۰ سے زیادہ قراردادوں ، قطعناموں اور بیانات کو جو اس کے خلاف صادر ہوئے انہیں نظر انداز کیا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
Add new comment