گذشتہ سے پیوستہ
لوگوں کا دو گروہ تھا؛ ایک گروہ کو امام علی علیہ السلام سے دشمنی اور ان کی مخالفت کے اسباب و بنیادوں کی خبر نہ تھی اور دوسرا گروہ حقائق سے اگاہ تھا مگر ان میں حقائق بیان کرنے کی جرأت نہ تھی ، مگر حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا نے پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ کینہ پرور افراد کے دل میں موجود کینہ کو برملا کردیا اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی کی بنیادوں کو لوگوں پر ظاھر و اشکار کردیا ، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نے اپنے اس عمل اور اقدام سے سقیفہ کے نفاق سے پردہ اٹھادیا اور امام علی علیہ السلام کی غربت و مظلومیت کا راز فاش کردیا ۔
خواص کی بے پرواہیوں کا مقابلہ
اہل بیت اطھار علیہم السلام کو سائڈ لگائے جانے اور ان کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حقوق کی پائمالی اور اس کا غصب کیا جانا فقط کچھ موقع پرست اصحاب کے ہاتھوں انجام نہیں پایا بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ بعض اصحاب کی بے توجہی اور بے پرواہی اس بات کا سبب بنی کہ بعض منصب پرست اور جاہ طلب افراد ، اہل بیت اطھار علیہم السلام کو ان کے مسلمہ حقوق سے محروم کردیں ، اگر انصار اور مہاجرین میں سے اہل بیت اطھار علیہم السلام کے دیگر چاہنے والے نیز قبائل قریش میدان میں حاضر رہتے اور امام علی علیہ السلام کے حق خلافت اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے حقوق کا مطالبہ کیا ہوتا تو ہرگز وہ تلخ حادثہ و سانحہ رونما نہ ہوتا کہ جس کے سلسلہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو یہ مرثیہ پڑھنا پڑا : ’’صُبَّتْ علَیَّ مصَائِبُ لَوْ أَنَّهَا صُبَّتْ عَلَی الْأَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیَا ؛ مجھ جو مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اگر دن پر پڑتے تو رات کے مانند تاریک ہوجاتے‘‘۔ (۱)
ان لوگوں نے با عظمت ، بزرگ اور نامور صحابی ہونے کے باوجود اپنی خاموشی سے اہل بیت علیہم السلام کے خلاف فتنہ اور سازش کی اگ بھڑکنے کا موقع اور زمینہ فراھم کیا اسی بنیاد پر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے انہیں سزا دی اور ان کی سرزنش و ملامت فرمائی ، حضرت فاطمہ زھراء علیہا السلام نے اس طرح، خلیفہ کے ہاتھوں پر تمام اصحاب کی بیعت کی قانونی و شرعی حیثت کو ختم اور باطل کردیا ۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا نے تاریخ کو وہ درس دیا کہ خاموشی ہمیشہ مناسب عمل نہیں کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ السلام کی وفات کے بعد رونما ہونے والے فتنے اور غدیر میں سوا لاکھ حاجیوں کے سامنے امام علی علیہ السلام کی ولایت و خلافت کے اعلان کے باوجود سقیفہ میں کچھ فتنہ پرور اصحاب کے وسیلہ خلیفہ کا انتخاب ایک ناشائستہ عمل تھا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شهید ثانی، زین الدین بن علی، مسکن الفؤاد عند فقد الأحبّة و الأولاد، ص ۱۱۲ ۔
Add new comment