گذشتہ سے پیوستہ
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مخالفین نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد مکمل طور سے اپ کو ندیدہ قرار دینے کی کوشش کی حتی سقیفہ بنی ساعدہ کے مسئلہ میں سران مہاجرین میں سے کسی نے بھی امام علی علیہ السلام کا نام خلافت کے مستحق افراد کے عنوان سے پیش نہیں کیا ، تجربہ کار اور با اثر اصحاب امام علی علیہ السلام کی تمام کارکردگی ، اپ کی قربانی ، اپ کے ایثار اور اپ کی فداکاری کو فراموش کر بیٹھے ، انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیابت ، خلافت اور جانشینی کے سلسلہ میں امام علی علیہ السلام سے مشورہ تک نہیں کیا اور نگاہوں سے دور ابوبکر کو خلیفہ بنا لیا اور ان کے ہاتھوں پر بیعت کرلی ۔
امام علی علیہ السلام نے بعض مسائل اور وجوہات کی بناء پر- کہ ان میں سے بعض کا اوپر تذکرہ ہوچکا ہے- اپنے حقوق کا دفاع نہیں کرسکتے تھے ۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا چونکہ ان لوگوں کی سازشوں اور اس کے نتائج سے بخوبی اگاہ اور خبردار تھیں ، اپ نے امام علی علیہ السلام کی عدیم المثال شخصیت کو پہچنوانے اور ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ٹھانی ، ان حالات میں جب کسی میں بولنے کی جرأت نہ تھی اپ نے امام علی علیہ السلام کے سلسلہ میں گفتگو فرمائی ، اپنے خطبے میں اپ کے درخشاں اور تابندہ ماضی کی جانب اشارہ کی فرمایا اور تمام مسلمانوں میں اپ کی با عظمت شخصیت کے سلسلہ میں لوگوں کو اگاہ کیا اور کبھی صدر اسلام کی جنگوں میں سرنوشت ساز اور فیصلہ کن لمحات میں امام علی علیہ السلام کی مجاہدت و شجاعت اور جانبازیوں کا تذکرہ کیا اور انہیں اس کی یاد دہانی فرمائی ۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
Add new comment