گذشتہ سے پیوستہ
جس وقت انصار و مہاجرین کی خواتین اپ علیہا السلام کی عیادت کو آئیں تو حضرت علیہا السلام نے تقریبا اپنے پورے بیان یعنی شروع سے لیکر اخر تک ان کے شوہروں کی سرزنش کی اور اخر میں خلافت کے سلسلہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وصیت سے روگردانی کے بدترین نتائج سے با خبر کیا اور انہیں غندہ گردی ، تشدد اور افراتفری سے بھرے مستقبل سے متنبہ کیا اور فرمایا: « أَبْشِرُوا بِسَیْفٍ صَارِمٍ وَ سَطْوَةِ مُعْتَدٍ غَاشِمٍ وَ بِهَرْجٍ شَامِلٍ وَ اسْتِبْدَادٍ مِنَ الظَّالِمِینَ، یَدَعُ فَیْئَکُمْ زَهِیداً وَ جَمْعَکُمْ حَصِیداً، فَیَا حَسْرَةً لَکُمْ وَ أَنَّی بِکُمْ ؛ اور تم لوگوں کو مبارک ہو کھنچی ہوئی شمشیریں ، ستمکاروں حملے ، عمومی افراتفری ، ظالمون کا ظلم و ستم کہ تمھارے حقوق کو کم دیں گے اور تمھارے اجتماع اور تمھاری یکجہتی کو [تلواروں کے بل] ختم کردیں گے ، نتیجتاً تمھارے لئے افسوس کا مقام ہوگا کہ تم کس جگہ پہنچ گئے ہو» ۔ (۱)
سوید ابن غفلہ کہتے ہیں کہ عورتوں نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی گفتگو اپنے شھروں سے نقل کی اور وہ لوگ بھی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے پاس معافی مانگنے کے لئے ائے اور کہا: اگر ابوالحسن [علیہ السلام] نے ان لوگوں یعنی ابوبکر کی بیعت سے پہلے ہم لوگوں کو ان باتوں سے باخبر کیا ہوتا تو ہم لوگ ان لوگوں کو [یعنی ابوبکر و عمر و عثمان] ابوالحسن [علیہ السلام] پرترجیح نہ دیتے اور ان کی لوگوں یعنی ابوبکر کی بیعت نہ کرتے ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: طبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، الإحْتِجاجُ عَلی أهْلِ اللّجاج، ج ۱، ص ۲۹۱ ؛ و مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص ۱۶۱ ۔
۲: طبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، الإحْتِجاجُ عَلی أهْلِ اللّجاج، ج ۱، ص ۲۹۱ ۔
Add new comment