فاطمه بنت حِزام مشهور بہ اُمّ البَنین امام علی علیہ السلام کی اہلیہ [۱] اور حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام ، عبدالله، جعفر و عثمان سلام اللہ علیہم کی مادر گرامی ہیں ، [۲] جو سن ۶۰ ھجری میں عاشور کے دن میدان کربلا امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں لڑتے ہوئے شھید ہوگئے ، اس لحاظ سے کہ اپ چار بیٹوں کی مادر گرامی ہیں ام البنین کے لقب سے مشھور ہیں ۔ [۳]
جناب ام البنین کے والد گرامی ابوالمجْل حزّام بن خالد کا قبیلہ بنی کلاب سے تعلق ہے ، [۴] اور بعض علمائے عصر نے ان کی مادر گرامی کا نام ثمامہ بنت سهیل بن عامر بن مالک تحریر کیا ہے ۔ [۵] حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کے سلسلہ میں معلومات موجود نہیں ہیں اور مورخین نے اپ کی پیدائش کے دن اور سال کو ثبت و ضبط نہیں کیا ہے ۔
حضرت امّ البنین سلام اللہ علیہا حضرت اباالفضل العباس علیہ السلام کی مادر گرامی کی ، بی بی دوعالم ، معصومہ کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شھادت کے بعد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے شادی ہوئی ، [۶] اپ ، شریف النفس ، بہادر ، اعلی حسب و نسب کی مالک اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے حق میں مہربان خاتون تھیں ۔
حضرت ام البنین سلام الله علیها کی وفات
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا اور انہیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا لیکن اپ کی پیدائش کی طرح اپ کی سال وفات کے سلسلہ میں تاریخ کی دستہ اول کتابوں اور روایات میں تذکرہ موجود نہیں ہے مگر متاخرین نے اپ کے یوم وفات کو ۱۳ جمادی الاول سن ۶۴ ھجری قمری تحریر کیا ہے ۔ [۷]
کتاب «کنز المطالب» جسے سیّد محمّد باقر قره باقی همدانی نے سن ۱۳۲۱ ھجری قمری میں تحریر کیا ہے ، حضرت ام البنین(ع) کے روز و سال وفات کے سلسلہ میں «اختیارات» نامی کتاب کے حوالے سے اعمش سے حدیث نقل کی ہے : « میں۱۳ جمادی الاول جمعہ کے دن امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا ، ناگہاں حضرت ابوالفضل العبّاس (ع) کے بیٹے فضل ، گریہ کناں داخل ہوئے اور کہا: میری دادی حضرت ام البنین علیہا السلام دنیا سے کوچک کرگئیں» ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱] ۔ ابن عنبہ حسنى، سید احمد بن على، عمدة الطالب فی أنساب آل أبى طالب، ص ۳۲۷ ؛ و عاملى، سید محسن امین، لواعج الأشجان فی مقتل الحسین(ع)، ص ۱۳۶۔
[۲] ۔ أنساب الأشراف، ج ۲، ص ۱۹۲؛ الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۱۴٫ ۔
[۳] ۔ الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۱۴؛ و شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج ۱، ص ۳۵۴، ؛ و عامِلی ، سید محسن بن سید عبدالکریم امین ، لواعج الأشجان، ص ۱۳۶٫ ۔
[۴] ۔ ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبرى، ج ۳، ص ۱۴ ۔
[۵] ۔ سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین(ع)، ص ۵۶ ۔
[۶] ۔ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، ج ۲، ص ۱۹۲؛ و سبط بن جوزی، تذکرة الخواص من الأمة فی ذکر خصائص الأئمة، ص ۱۶۸؛ و امین، سید حسن، مستدرکات اعیان الشیعة، ج ۱، ص ۳۲۶ ۔
[۷] ۔ محمدعلی الناصری، مولد عباس بن علی(ع)، ص۳۶ ۔
Add new comment