گذشتہ سے پیوستہ
اسی طرح ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ ایک راوی نے مولا امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اسم شریف زہراء کیوں رکھا گیا ، تو آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ آپ کا نام زہراء اس لئے پڑا کیونکہ جب آپ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کا نور اہل آسمان کے لئے اسی طرح روشنائی دیتا اور چمکتا تھا جس طرح ستاروں کا نور اہل زمین کے لئے روشنائی دیتا ہے اور چمکتا ہے۔ (۱)
لہذا صدیقہ کبری کی سیرت پر چلنے والے انسان کو چاہئے کہ اپنی روزانہ کی مشغولیات کے ساتھ ساتھ اللہ سے راز و نیاز کا ایک خاص وقت معین کرے اور اللہ سبحانہ و تعالی سے رابطے اور تعلق کو اپنی زندگی کا ایک اہم جزء قرار دیتے ہوئے اپنی زندگی میں اللہ کی عبادت و پرستش ، پنجگانہ نمازیں ، تعقیبات اور ، نماز شب وغیرہ کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل بنا دے نیز اسی سے دعا کرنے ، صرف اسی سے امید باندھنے اور صرف اسی پر توکل و اعتماد کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنالے یہ حالت انسان کی زندگی کو اس دنیا ہی میں جنت کا نمونہ بنا دے گی اور انسان کو وہ لذت اور وہ سکون حاصل ہوگا جو کہیں حاصل نہیں ہوسکتا۔
فقراء کی دستگیری
اٹھارہ سال کی مختصر سی حیات میں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت طیبہ کا ایک روشن باب آپ کے ذریعہ غرباء فقراء اور محرومین کی دستگیری اور ان کا خیال رکھنا ہے یہاں تک کہ یہ دروازہ اور یہ گھر غرباء پروری کی نشانی اور علامت بن گیا ، اس گھرانہ نے انسانوں کی مشکلات دور کرنے اور معاشرہ میں دبے کچلے افراد کی ہر طرح سے مدد کرنے اور مظلومین کی حمایت میں وہ اعلی کردار پیش کیا ہے جس کی نظیر دنیا میں ڈھوںڈھنے کو نہیں ملتی۔
صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا مکتب وحی کی پروردہ اور آغوش پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تربیت یافتہ ہیں اور کیونکہ اسلام انسانوں سے دوستی سکھانے والا دین ہے اور لوگوں کے معاملات کو حل کرنے ، ان کی پریشانیوں کو دور کرنے نیز ان کے امور کی دستگیری کا درس دیتا ہے ، غرباء اور فقراء کی مدد کرنے پر تاکید کرتا ہے ، مظلومین اور محرومین کی مدد کرنا سکھاتا ہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان تعلیمات کا عملی نمونہ اہلبیت طاہرین علیہم السلام اور خصوصا حجاب میں رہ کر اعلی کردار کا نمونہ پیش کرنے والی پاک و پاکیزہ خاتون صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں جن کی سیرت نے بشریت کے سامنے وہ کردار پیش کیا ہے جو رہتی دنیا تک بھلایا نہیں جاسکتا اور تمام بشریت کے لئے یہ کردار ایک اسوہ ، آئیڈیل اور عملی نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: علل الشرائع ، ج ۱ ، ص ۱۸۱ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) عَنْ فَاطِمَةَ لِمَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ فَقَالَ لِأَنَّهَا كَانَتْ إِذَا قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا زَهَرَ نُورُهَا لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تَزْهَرُ نُورُ الْكَوَاكِبِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ۔
Add new comment