گذشتہ سے پیوستہ
آپ کی سیرت طیبہ میں اس قسم کے سیکڑوں واقعات مؤرخین نے تحریر کئے ہیں جس میں سے بعض مصادیق کو ہم بطور نمونہ یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے ، ایک مشہور واقعہ آپ کی شادی سے متعلق ہے نقل ہوا ہے کہ آپ کی شادی ہوئی اور وہ جوڑا جسے آپ نے دلہن کی شکل میں پہنا تھا اور جس لباس میں پہلی مرتبہ آپ نے اپنے عظیم شوہر مولائے کائنات امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف میں قدم رکھا تھا ، شادی کی رات ہی جب ایک سائل نے آپ کے دروازے پر دست سوال دراز کیا اور کہنے لگا اے اہل خانہ میں بھوکا ہوں اور میرے تن پر لباس بھی نہیں ہے تو اس وقت آپ کے پاس دو لباس تھے ایک پرانا لباس اور ایک شادی کا نیا جوڑا آپ نے اپنی شادی کا نیا جوڑا اور وہ قیمتی لباس اس فقیر کو دے دیا اور اسے کھانا بھی کھلایا اور قرآن کی اس آیت کی تلاوت فرمائی : لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (۱) ، لوگو! تم ہرگز اس وقت تک نیکی (کو حاصل) نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔ (۲) اور اپنے اس کردار کے ذریعہ دنیا کو درس دے دیا کہ دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دوسروں کی محرومی دور کرنے کے لئے اپنا بیش قیمت اور محبوب اثاثہ بھی اللہ کی راہ میں دے دیا جاتا ہے اللہ والوں کی یہ سیرت ہے۔
سورہ ہل آتی کے نزول کا واقعہ اس خاندان کی عظمت پر چارچاند لگاتا ہے کہ جب اس مقدس گھرانے نے تین دن نذر کے روزے رکھے تھے اور سائل کبھی مسکین کبھی یتیم اور کبھی اسیر کی شکل میں افطار کے وقت دق الباب کرتا ہے تو اس گھر کی رہنے والی عظیم ذوات مقدسہ نے جس میں خود صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا شامل ہیں ، آپ کے شوہر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام شامل ہیں ، آپ کے دونوں بیٹے جوانان جنت کے سردار امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام شامل ہیں نیز آپ کی پروردہ آپ کے گھر کی کنیز جناب فضہ بھی شامل ہیں ، ان ہستیوں نے پہلے دن اپنے اپنے حصہ کا کھانا اس مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کرکے عبادت میں مشغول ہوگئے ، دوسرے دن پھر تمام اہل خانہ روزہ رکھتے ہیں افطار کا انتظام کرتے ہیں اور یہی واقعہ پھر پیش آتا ہے اور سبھی حضرات اپنے اپنے حصے کا کھانا اس آنے والے یتیم کو دے کر پانی سے افطار کرتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں ، تیسرے دن یہی واقعہ پھر پیش آتا ہے افطار کے وقت گھر والےجیسے ہی روزہ افطار کرنا چاہتے ہیں ایک اسیر آتا ہے اور یہ حضرات اپنے اپنے حصے کا کھانا اسے دے کر خود بھوکے ہی سو رہتے ہیں (۳) ، معبود کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آتی ہے کہ اس خاندان اور اس گھر والوں کی شان میں سورہ دہر کو نازل فرماتا ہے اور ان کی مدح و ثنا کرتا ہے۔(۴)
جاری ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ آل عمران آیت ۹۲ ، لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ۔
۲: شوشتری ، قاضى نور الله ، إحقاق الحق و إزهاق الباطل ، ج ۱۰ ، ص ۴۰۱ ؛ صفوری ، عبدالرحمن بن عبدالسلام ، نزهة المجالس و منتخب النفائس ، ج ۲ ، ص ۱۷۵۔
۳: مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۳۵ ص ۲۴۳ و ۲۴۴ ، روي أن الحسن والحسين مرضا فنذر علي وفاطمة والحسن والحسين : صيام ثلاثة أيام فلما عافاهما الله ـ وكان الزمان قحطا ـ أخذ علي من يهودي ثلاث جزات صوفا ، لتغزلها فاطمة / وثلاثة أصواع شعيرا ، فصاموا ، وغزلت فاطمة جزة ثم طحنت صاعا من الشعير فخبزته ، فلما كان عند الافطار أتى مسكين فأعطوه طعامهم ولم يذوقوا إلا الماء ، ثم غزلت جزة اخرى من الغدثم طحنت صاعا فخبزته ، فلما كان عند المساء أتى يتيم فأعطوه ولم يذوقوا إلا الماء ، فلما كان من الغد غزلت الجزة الباقية ثم طحنت الصاع وخبزته ، وأتى أسير عند المساء فأعطوه ، وكان مضى على رسول الله أربعة أيام والحجر على بطنه وقد علم بحالهم ، فخرج ودخل حديقة المقداد ولم يبق على نخلاتها ثمرة ، ومعه علي ، فقال : يا أبا الحسن خذ السلة وانطلق إلى النخلة ـ وأشار إلى واحدة ـ فقل لها : قال رسول الله 9 : سألتك عن الله أطعمينا من ثمرك قال علي 7 : ولقد تطأطأت بحمل ما نظر الناظرون إلى مثلها ، والتقطت من أطائبها وحملت إلى رسول الله 9 فأكل وأكلت ، فأطعم المقداد وجميع عياله ، وحمل إلى الحسن والحسين وفاطمة : ما كفاهم ، فلما بلغ المنزل إذا فاطمة / يأخذها الصداع ، فقال 9 : أبشري واصبري فلن تنالي ما عند الله إلا بالصبر ، فنزل جبرئيل بهل أتى.
۴: سورہ انسان ، آیت ۷ ۔ ۸ ۔۹ و۔۔۔ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا۔
Add new comment