گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ایک مکتوب میں امام حسن علیہ السلام کو مورد خطاب قرار دے کر بچوں کی تربیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : نوجوان کا قلب ایک خالی زمین کی طرح ہے اس میں جو بھی ڈالا جائے گا اسے قبول کرلے گا لہذا میں نے تمہاری تربیت کی جانب جلدی کی اس سے پہلے کہ تمہارا دل سخت ہوجائے ، تمہارا ذہن کہیں اور مشغول ہوجائے۔ (۱)
ایک دوسری حدیث میں آپ ارشاد فرماتے ہیں : مجھے پسند نہیں ہے کہ تم جوانوں میں سے کسی کو دیکھوں مگر یہ کہ ان دو حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں صبح کرے یا عالم ہو یا متعلم۔ (۲)
د : سعی و تلاش اور عمل محور تربیت
دینی تربیت میں ایک اہم اصل ، سعی و تلاش اور عمل کی جانب لے جانے والی تعلیم و تربیت ہے ورنہ فقط جان لینا کافی نہیں ہے فقط سیکھ لینا کافی نہیں ہے بلکہ اہم ترین عنصر اس تعلیم و تربیت کا عمل میں ظاہر ہونا ہے ، لہذا کامیاب مربی وہ ہے جس کی تربیت اس شخص کو عمل کی جانب لے جائے سعی و تلاش کی روح اس میں پھونک دے۔
اسی لئے ارشاد رب العزت ہوتا ہے : اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔ (۳)
اسلامی تعلیم و تربیت ، عمل گرا ہے لیکن ایسا عمل جس کا فائدہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ظاہر ہو ، لہذا اسلامی معارف میں عمل کے ساتھ نیت اور معرفت پر بھی بہت تاکید کی گئی ہے ، اسی طرح عمل کے ساتھ ساتھ امتحان و آزمایش کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے۔
ہ : اخلاق محور تربیت
دین کی ایک اہم تعلیم اخلاق ہے حتی کہ پروردگار عالم انبیاء کے بھیجنے کا ایک مقصد ، معاشرہ کو تعلیم اور تزکیہ کی بلندیوں تک لے جانا بتا رہا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (۴)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں : مجھے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ میں معاشرہ کو اخلاق کی بلندیوں تک لے جاسکوں ۔ (۵)
اسلامی تعلیمات کا محور یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک عظیم اخلاقی تبدیلی کو ایجاد کیا جاسکے اسی لئے اسلامی معارف میں تقوی پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے جو کہ اسلامی تربیت کا بہت اہم عنصر ہے ، حتی کہ ارشاد ہوتا ہے : بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑا باخبر ہے۔ (۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: نہج البلاغہ ، مکتوب ۳۱ ، اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالْأَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْهُ، فَبَادَرْتُكَ بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ وَ يَشْتَغِلَ لُبُّكَ، لِتَسْتَقْبِلَ بِجِدِّ رَأْيِكَ مِنَ الْأَمْرِ مَا قَدْ كَفَاكَ أَهْلُ التَّجَارِبِ بُغْيَتَهُ وَ تَجْرِبَتَهُ، فَتَكُونَ قَدْ كُفِيتَ مَئُونَةَ الطَّلَبِ وَ عُوفِيتَ مِنْ عِلَاجِ التَّجْرِبَةِ، فَأَتَاكَ مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ كُنَّا نَأْتِيهِ وَ اسْتَبَانَ لَكَ مَا رُبَّمَا أَظْلَمَ عَلَيْنَا مِنْهُ۔
۲: مجلسی ، محمد باقر ، بحار الأنوار ج ۱ ، ص ۱۷۰، لَسْتُ أُحِبُّ أَنْ أَرَي الشَّابَّ مِنْكمْ إِلا غَادِياً فِي حَالَيْنِ إِمَّا عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً۔
۳: سورہ نجم آیت ۳۹ و ۴۰ ، وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ۔
۴: سورہ جمعہ آیت ۲ ، هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ۔
۵: محدث نوری ، مستدرك الوسائل ، ج ۱۱ ، ص ۱۸۷ ، إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاق۔
۶: سورہ حجرات آیت ۱۳ ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔
Add new comment