گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
اسی بنا پر قرآن کریم زندگی کے بعض مراحل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بچنے کے زمانہ کو کھیل و تماشہ سے تعبیر کر رہا ہے ارشاد ہوتا ہے : اور خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشہ، ظاہری زیب و زینت ، باہمی فخر و مباہات اورمال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ہے اس کے سو اکچھ نہیں ہے۔ (۱)
علامہ طباطبائی شیخ بھایی سے نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں انسانی زندگی کے پانچ مراحل کی جانب اشارہ ہے۔ (۲)
الف۔ بچپن کا دور (لَعِبٌ وَلَهْوٌ ، کھیل تماشہ ) کا دور ہے۔
ب۔ بلوغ اور نوجوانی کا دور ( زِینَةٌ ، ظاہری زیب و زینت ) کا دور ہے۔
ج۔ جوانی کا دور ( وَتَفَاخُرٌ بَینَکمْ ، باہمی فخر و مباہات ) کا دور ہے۔
د۔ ادھیڑ عمر کا زمانہ ( تَکاثُرٌ فِی الْأَمْوَالِ ، مال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ) کا زمانہ ہے۔
ہ۔ بڑھاپے کا زمانہ (وَتَکاثُرٌ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ، اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ) کا زمانہ ہے۔
لہذا انسانی تربیت کا دور بچنے اور حد اکثر نوجوانی کا زمانہ ہے جس میں بچوں کی نشو و نما ہوتی ہے اگر بچہ ایک طرف سےجسمانی لحاظ سے بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب سے اس کا کردار و اخلاق بھی اس کی معنوی اور روحانی ترقی یا تنزلی کا سبب بن رہا ہے ، اور یہ اخلاق و کردار صحیح یا غلط تربیت کا نتیجہ ہے لہذا جس طرح اس کے جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے اسی طرح اس کی تربیت بھی ماں باپ کا وظیفہ ہے۔
روایات میں تربیت کی اہمیت
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام تربیت کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : فرزند اپنے باپ پر حق رکھتا ہے اور باپ بھی اولاد پر حق رکھتا ہے ، باپ کا حق اولاد پر یہ ہے کہ وہ ہر چیز میں اس کی اطاعت کریں سوائے معصیت پروردگار کے اور اولاد کا حق باپ پر یہ ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اس کی اچھی تربیت کرے اور اسے قرآن کی تعلیم دے۔ (۳)
یعنی تربیت کی اتنی اہمیت ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام صحیح تربیت بچہ کا بنیادی حق بتا رہے ہیں اور اگر باپ اس میں کوتاہی کرے تو ذمہ دار ہے اس نے بچے کے حق کو ادا نہیں کیا ہے لہذا بچہ کی صحیح تربیت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
اسی طرح امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ایک مکتوب میں امام حسن علیہ السلام کو مورد خطاب قرار دے کر بچوں کی تربیت کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : نوجوان کا قلب ایک خالی زمین کی طرح ہے اس میں جو بھی ڈالا جائے گا اسے قبول کرلے گا لہذا میں نے تمہاری تربیت کی جانب جلدی کی اس سے پہلے کہ تمہارا دل سخت ہوجائے ، تمہارا ذہن کہیں اور مشغول ہوجائے۔۔۔ (۴)
یعنی بچے کی تربیت اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچے کی تربیت کی جانب قدم نہیں بڑھائے سستی کی تو ہماری خالی جگہ کو پر کرنے کیلئے دوسرے متبادل موجود ہیں اور وہ اپنے اعتبار سے ہمارے بچوں کی تربیت کریں گے ، لہذا اس سے پہلے کہ ہم اپنے بچوں کی غلط تربیت کے آثار سے روبرو ہوں اس کے نتائج سے رنجیدہ ہوں ہماری ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تربیت میں پہل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ حدید آیت ۲۰ ، اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیاةُ الدُّنْیا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِینَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَینَکمْ وَتَکاثُرٌ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ۔
۲: علامہ طباطبائی ، تفسیر المیزان ، ج ۱۹ ، ص ۲۸۹ ، ذیل سورہ حدید آیت ۲۰۔
۲: نہج البلاغہ ، حکمت ۳۹۹ ، إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى اَلْوَالِدِ حَقّاً وَ إِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى اَلْوَلَدِ حَقّاً. فَحَقُّ اَلْوَالِدِ عَلَى اَلْوَلَدِ أَنْ يُطِيعَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلاَّ فِي مَعْصِيَةِ اَللَّهِ سُبْحَانَهُ وَ حَقُّ اَلْوَلَدِ عَلَى اَلْوَالِدِ أَنْ يُحَسِّنَ اِسْمَهُ وَ يُحَسِّنَ أَدَبَهُ وَ يُعَلِّمَهُ اَلْقُرْآنَ۔
۳: نہج البلاغہ ، مکتوب ۳۱ ، اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالْأَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْهُ، فَبَادَرْتُكَ بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ وَ يَشْتَغِلَ لُبُّكَ، لِتَسْتَقْبِلَ بِجِدِّ رَأْيِكَ مِنَ الْأَمْرِ مَا قَدْ كَفَاكَ أَهْلُ التَّجَارِبِ بُغْيَتَهُ وَ تَجْرِبَتَهُ، فَتَكُونَ قَدْ كُفِيتَ مَئُونَةَ الطَّلَبِ وَ عُوفِيتَ مِنْ عِلَاجِ التَّجْرِبَةِ، فَأَتَاكَ مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ كُنَّا نَأْتِيهِ وَ اسْتَبَانَ لَكَ مَا رُبَّمَا أَظْلَمَ عَلَيْنَا مِنْهُ۔
Add new comment