صلہ رحمی کا معنی
صلہ رحمی کا معنی ہے اپنے رشتہ داروں اور قریبی افراد جن کے ساتھ خدا نے تعلقات برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے ان سے تعلقات برقرار رکھنا ، محبت سے پیش آنا ، آپس میں مل جل کر رہنا ، ایک دوسرے کی ملاقات کو جانا ، مالی مدد کرتے رہنا ، ایک دوسرے کا خیال رکھنا ، ایک دوسرے کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا ، اسی سلسلے سے قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے : اور اللہ نے جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وه اسے جوڑتے ہیں۔ (۱)
اس آیت کریمہ میں انبیاء کی دعوت پر لبیک کہنے والے ذوی الالباب یعنی صاحبان عقل کے آثار بیان ہورہے ہیں جس میں سے ایک اثر یہ ہے کہ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں۔
لہذا صلہ رحمی اپنے تمام رشتہ داروں اور قرابت داروں سے تعلقات برقرار رکھنا ہے اور رشتہ دار جتنا نزیک ہوگا اس سے تعلقات برقرار رکھنے کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ اور اتنی ہی ضروری ہوگی۔
صلہ رحمی کی اہمیت
صلہ رحمی کی اہمیت کیلئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر گرامی اسلام نے تمام انسانوں کو صلہ رحمی انجام دینے کی سفارش کی ہے اگرچہ اس راستے میں سختیان جھیلنا پڑیں یا دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ طے کرنا پڑے ، نیز آپ نے صلہ رحمی کو دین کا حصہ قرار دیا ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ جو صلہ رحمی نہ بجا لائے اس کا دین ناقص ہے۔ نبی گرامی اسلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین اور قیامت تک آنے والے وہ افراد جو اپنے باپ کے صلب اور ماؤں کے رحم میں ہیں سب کو یہ سفارش اور وصیت کر رہا ہوں کہ صلہ رحمی انجام دیں اگرچہ ایک دوسرے سے ایک سال کے فاصلہ پر رہتے ہوں کیونکہ صلہ رحمی دین کا حصہ ہے۔ (۲)
صلہ رحمی کی مقدار
صلہ رحمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حتما ایک پروگرام رکھا جائے ، دعوت کا انتظام کیا جائے ، انواع و اقسام کی غذاؤں کا اہتمام کیا جائے بلکہ صلہ رحمی کا یہ مطلب نکالنا غلط ہے ، اسلام نے صلہ رحمی کا مفہوم بہت وسیع اور آسان بیان کیا ہے مثلا امام جعفر صادق علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : صلہ رحمی کرو اگرچہ ایک پانی پلانے کے ذریعہ ہو اور سب سے افضل وہ چیز جس کے ذریعہ صلہ رحمی انجام پاتی ہے ، رشتہ داروں کو اذیت دینے ، پریشان کرنے اور انہیں ستانے سے دوری اختیار کرنا ہے۔ (۳)
آج کل جبکہ دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کرچکی ہے ایک دوسرے سے ملنا ، حال چال دریافت کرنا بہت آسان ہوگیا ہے انسان ایک میسیج کے ذریعہ ایک کال کے ذریعہ بہت آسانی سے ایک دوسرے سے تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے اور آپس میں محبت و صمیمیت کا ماحول قائم کیا جاسکتا ہے بہرحال یہ کم سے کم ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہیں ایک دوسرے سے محبت کریں ، اس کے بعد صلہ رحم کے دوسرے مراحل آتے ہیں مثلا ایک دوسرے کی مدد کرنا ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ، ایک دوسرے کی حمایت کرنا ، ہر ایک کی خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنا وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ رعد آیت ۲۱ ، وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ۔
۲: کلینی ، محمد بن یعقوب ، الکافی ، ج ۲ ، ص ۱۵۱ ، عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أُوصِي الشَّاهِدَ مِنْ أُمَّتِي وَ الْغَائِبَ مِنْهُمْ وَ مَنْ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وَ أَرْحَامِ النِّسَاءِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَنْ يَصِلَ الرَّحِمَ وَ إِنْ كَانَتْ مِنْهُ عَلَى مَسِيرَةِ سَنَةٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنَ الدِّينِ۔
۳: گذشتہ حوالہ ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع صِلْ رَحِمَكَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ وَ أَفْضَلُ مَا تُوصَلُ بِهِ الرَّحِمُ كَفُّ الْأَذَى عَنْهَا وَ صِلَةُ الرَّحِمِ مَنْسَأَةٌ فِي الْأَجَلِ مَحْبَبَةٌ فِي الْأَهْلِ۔
Add new comment