حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا اس خاندان اور گھرانہ میں پیدا ہوئیں اور تربیت پائی جو علم و تقوائے الھی اور اخلاقی فضائل و کمالات کا مرکز و مخزن تھا ، حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد اپ کی تربیت کی ذمہ داری حضرت امام رضا علیہ السلام نے سنبھالی ، امام ہشتم علیہ السلام کی اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں پر خاص توجہ کی وجہ سے ہر ایک بھائی اور بہنیں اعلی مراتب پر فائز ہوئے کہ جو زباں زد خاص و عام ہے ۔
ابن صباغ مالکى اس سلسلہ میں کہتے ہیں : ابوالحسن موسى معروف بہ کاظم کے ہر ایک بچے فضائل و کمالات میں معروف ہیں ۔ (۱) اربلی بھی اس سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں : ابوالحسن موسى علیہ السلام کے ہر ایک بچوں کے فضائل و کمالات مشھور ہیں ۔ (۲)
جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے بچوں میں حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا ، امام رضا علیہ السلام کے بعد ، علم و اخلاق و کمالات کے اعلی ترین درجہ پر فائز ہیں ، یہ وہ حقیقت ہے جو ائمہ اطھار علیہم السلام کی گفتگو اور اپ کے سلسلہ میں منقول روایت میں موجود ہے ۔
نویں صدی کے شیعہ عالم دین صالح بن عرندس حلى اپنی کتاب "کشف اللئالى"(۳) میں تحریر کرتے ہیں: ایک دن شیعوں کا ایک وفد امام ہفتم حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام کے دیدار اور کچھ سوالات کے جواب دریافت کرنے کی غرض سے اپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور چونکہ امام موسی ابن جعفر علیہ السلام سفر پر تھے انہوں نے اپنے سوالات حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا جو اس وقت کمسن تھیں حوالے کردیا ، وپ لوگ دوسرے دن دوبارہ امام علیہ السلام کے بیت الشرف پہنچے مگر امام علیہ السلام سفر سے نہیں لوٹے تھے ، چونکہ وہ لوگ واپس لوٹنے پر مجبور تھے انہوں نے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ آئندہ جب امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں تو ان سے جوابات دریافت کرسکیں مگر جب انہوں نے سوالات کے ہمراہ اس کے جوابات دیکھے تو انگشت بدنداں رہ گئے اور نہایت مسرور ہوئے ، حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کا فراوان شکریہ ادا کیا اور مدینے سے رخصت ہوگئے ، خوش قسمتی سے راستہ میں ان لوگوں کی امام موسی کاظم علیہ السلام ملاقات ہوگئی ، انہوں نے اپنی باتوں کا امام علیہ السلام سے تذکرہ کیا اور وہ جوابات امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کئے ، امام علیہ السلام نے جب جوابات دیکھے تو تین بار فرمایا : "فداها ابوها" (۴)؛ ان کے بابا ان پر قربان ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ابنصباغ مالکی، ألفُصولُ ألمُهمّة فی مَعْرِفَة ألأئمَّة ، ص۲۴۰۔
۲: اربلی، علی بن عیسی، کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة (ع)، ج۳، ص۳۰۔
۳: کشف اللئالى (غیرمطبوعہ خطی نسخہ)، ص ۶۲۔
۴: مهدی پور، علی اكبر، کریمہ اهل بیت، ص۶۳ و ۶۴۔
Add new comment