حضرت امام حسین علیہ السلام اس حوالے سے کہ پنجتن پاک کی اخری کڑی اور خاندان عصمت و طھارت کے تیسرے معصوم امام تھے اپ کا فریضہ لوگوں میں شعور و بیداری پیدا کرنا تھا تاکہ یزید اور بنی امیہ کی جانب دین اسلام میں پیدا کی جانے والی تحریفات کا سد باب ہوسکے ۔
امام حسین علیہ السلام نے سرزمین کربلا پر جام شہادت نوش کرکے دین اسلام کی بنیادوں میں وہ رنگ بھردئے جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی سخت اور دشوار ہے ۔
بھائی ، بیٹے ، کلیجے کے ٹکڑے اور بے مثال انصار جن کے سلسلے میں اپ نے فرمایا : «اللَّهُمَّ إِنِّي لَا أَعْرِفُ أَهْلَ بَيْتٍ أَبَرَّ وَلَا أَزْكَى وَلَا أَطْهَرَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي وَلَا أَصْحَاباً هُمْ خَيْرٌ مِنْ أَصْحَابِي ؛ میں نے اپنے اصحاب اور اھل بیت سے بہتر اصحاب اور اھل بیت نہیں دیکھے» (1) ، اسلام و قرآن کی بقا کے لئے راہ خدا میں قربان کردئے ۔
زخم و خون سے رنگین جنازوں پر سجدۂ شکر ادا کرنا کوئی آسان بات نہیں اسی چیز نے ضمیر فروش قاتلوں کو انسانیت کی نظروں میں ذلیل و خوار کردیا ۔ ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ضبط اشک نے مردہ دلوں کو بھی جھنجوڑ کے رکھ دیا مگر وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ آيا ، نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرادئے ۔
اعتماد و اطمینان سے سرشار نگاہیں اور نور یقین سے گلنار چہرے ، مظلومیت کا یہی وہ رخ ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی جانب سے انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لے کر نکلے کے مقصد کو بتاتی ہیں ۔
ان تمام چیزوں کا پس منظر بس و بس ایک چیز ہے اور وہ امام حسین علیہ السلام کی جانب سے یزید کی بیعت سے انکار اور یزید ملعون کی جانب سے بیعت لینے کا اصرار ، سماجی لحاظ سے اگر امام حسین علیہ السلام کی جانب سے انکار بیعت یزید کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے دو زاویہ ہوں گے ایک یہ کہ یزید کی خلافت اس صلح نامہ کے خلاف ہے جو معاویہ اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے درمیان ہوا تھا اور وہ یہ کہ معاویہ اپنے بعد کوئی خلیفہ ، جانشین اور حکمراں معین نہ کرے گا مگر معاویہ نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بعد یزید ملعون کو تخت حکومت پر بیٹھا دیا ، دوسرے خدا ، رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور اسلام کے سلسلہ میں یزید کے افکار و نظریات تھے ۔
یزید نے تخت حکومت سنبھالتے ہیں اسلام کی کھلم کھلا مخالفت شروع کی اور تخت خلافت پر بیٹھ کر درباریوں کی موجودگی میں ان اشعار کو پڑھنا شروع کیا :
«لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ» یعنی بنی ہاشم نے ملک و حکومت کا کھیل کھیلا وگرنہ [آسمان سے] نہ کوئی خبر آئی اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی ۔ (2)
یزید کے یہ الفاظ اور ملاء عام میں شراب نوشی اس کے فسق و فجور و دین سے کوسوں دور ہونے کی نشانی تھے ، لہذا امام حسین علیہ السلام نے اس کی بیعت کا انکار کردیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شیخ صدوق ، الأمالي للصدوق، ص 156 ۔
۲: اللهوف ص : 181، حیاه الحسین جلد3، صفحه 377 ـ سیره ابن هشام جلد 3، صفحه 143 تاریخ طبری جلد 7، صفحه 383، بحار الأنوار، جلد 45، صفحه 132 ۔
Add new comment