امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ میں مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فراوان ، کثیر اور لاتعداد روایتیں اور حدیثیں منقول ہوئی ہیں لہذا ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام رسول خدا (ص) کی نگاہ سے بیان اور معرفی کئے جائیں ، ان احادیث میں سے ایک حدیث «اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ علیه السّلام حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤمنینَ لا تَبْرُدُ اَبَداً ؛ شھادت امام حسین [علیہ السلام] مومنین کے دلوں میں وہ حرارت ہے جو ہرگز ٹھنڈی نہیں ہوسکتی» ہے ، اس حدیث کی جو اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث کے اندر تین معجزہ موجود ہے اور وہ تین غیبی خبر ہے کہ بالفرض اگر رسول اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس اثبات نبوت کے لئے اس حدیث کے سوا کوئی اور معجزہ نہ ہوتا تو یہی ایک حدیث اپ (ص) کی نبوت کے اثبات کے لئے کافی تھی ، کیوں کہ اس حدیث میں تین غیبی خبر اور تین معجزہ موجود ہے :
۱: شھادت امام حسین علیہ السلام کی خبر یعنی ادھی صدی کے بعد اپ (ص) کے نواسے کی شھادت انجام پائے گی ، آنحضرت (ص) نے اس وقت خبر کو دیا کہ جب امام حسین علیہ السلام کی عمر کم تھی ، اپ کے چھوٹے تھے ، کسی کو بھی اس بات کی خبر نہ تھی کہ آدھی صدی کے بعد امام حسین علیہ السلام شھید کردیئے جائیں گے ، یہ غیب کی خبر ہے اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ علیه السّلام ۔۔۔ »۔
۲: دوسری خبر یہ کہ انحضرت (ص) نے فرمایا : «حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤمنینَ۔۔» یہ شھادت کوئی معمولی شھادت نہیں ہے بلکہ یہ شھادت مومنین کے دلوں گرمی پیدا کرے اور عشق و محبت کی آگ بھڑکائے گی ، ہر قتل اور شھادت گرمی اور حرارت کا سبب نہیں بنتی ، ماضی اور حال میں بہت سارے لوگ مارے گئے مگر معاشرہ پر کوئی اثر نہیں پڑا ، کوئی بھی تحریک قائم نہیں ہوئی مگر امام حسین علیہ السلام کی شھادت پر اسلامی معاشرہ متحرک ہوگا ، آنحضرت (ص) نے فرمایا «الْمُؤمنینَ» یعنی پورا عالم اسلام ، ہر شھید میں یہ اثر نہیں موجود ہے ، تاریخ اسلام میں بہت سارے شھداء موجود ہیں ، دنیا میں بہت سارے لوگ مارے گئے مگر کسی بھی شھادت و موت کا یہ اثر نہیں ہے ، مگر امام حسین علیہ السلام کی شھادت کی جو گرمی موجود ہے وہ کسی بھی جگہ موجود نہیں ہے ، دسیوں لاکھ انسان دنیا کے مختلف ممالک اور گوشے میں ماتم زدہ ہیں ، امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی شھید ایسا نہیں ہے جس کی محبت میں اس مقدار میں لوگ نوحہ و ماتم کرتے ہوں ، یہ دوسری غیبی خبر ہے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: نوری ، میرزا حسین، مستدرك الوسائل ، ج ۱۰ ، ص ۳۱۸ ۔
Add new comment