حضرت ابوالفضل العباس (ع) ایسے گھرانے اور خاندان میں پیدا ہوئے جو علم و حکمت کی دولت سے مالا مال تھا ، اپ نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ، امام حسن و حسین علیہم السلام سے کسب فیض فرمایا ، اسی بنیاد پر امام علی علیہ السلام نے اپ کے سلسلہ میں فرمایا : «ان ولدى العباس زق العلم زقا ؛ میرے فرزند عباس کو علم چگایا گیا» یعنی جس طرح پرندے اپنے بچوں کو دانا چگاتے ہیں اسی طرح اھلبیت علیہم السلام نے انہیں علم کے اسراء سیکھائے ۔ (۱)
اسی کے مانند مضمون میں معصوم علیہم السلام سےمنقول ایک اور روایت موجود ہے کہ فرمایا : عباس ابن علی علیہما السلام نے اپنے والد سے غذا کی طرح کی علم نوش کیا ۔
علامہ شیخ عبدالله ممقانی کتاب تنقیح المقال میں حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے علمی اور معنوی مقام کے سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں : اپ ائمہ معصومین علیہم السلام کے فقیہ اور دانشور بچوں میں سے تھے ، اپ عادل ، متقی ، طاھر اور ائمہ طاھرین علیہم السلام کے مورد اعتماد تھے ۔ (۲)
جناب حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کا عرفانی مقام
اگر ہم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی حیات و زندگی اور حالات پر نگاہ ڈالیں تو یقینا معلوم ہوگا کہ حضرت علیہ السلام سچے عرفان کا ائڈیل اور نمونہ عمل ہیں ، اپ نے سیر و سلوک کی منزلیں بخوبی طے کی ہیں ، خصوصا جس وقت ہم روز عاشور کے حالات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس بات کا ہمیں یقین ہوجاتا ہے ۔
مقام اخلاص :
عرفان کی ایک منزل اور ایک مرحلہ اخلاص ہے اور اخلاص کے تین مراحل اور مراتب ہیں :
۱: بغیر اجر و جزاء کے عمل انجام دینا ۔
۲: اپنے عمل اور اپنی کوشش کو کافی نہ سمجھنا ۔
۳: اپنے عمل اور کام کو حق کے راستہ میں ناچیز سمجھنا اور سب کچھ کے لئے جاننا ۔
حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے خدا کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور اس راہ میں ہر قسم کی سختی و مصیبت برداشت کی نیز کسی بھی قسم کے خوف و خطر سے نہ ڈرے ، یہ شجاعت ، ایثار و فداکاری اپ کے اخلاص کی نشانی ہے ، جیسا کہ حضرت نے لشکر اشقیاء سے جنگ کے وقت رجز پڑھتے ہوئے فرمایا : « والله ان قطعتموا یمینی / انی احامی ابدا عن دینی» خدا کی قسم اگر چہ تم لوگوں نے میرا داہنا ہاتھ قلم کردیا مگر میں دین خدا کی حمایت سے ہاتھ نہیں اٹھاوں گا ۔ (۳)
اس شعر میں حضرت علیہ السلام کا مقصد پوشیدہ ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مقرّم، مقتل الحسین، ص ۱۶۹ ؛ و سیمای امام حسین علیہ السلام، ص ۱۸۲ ۔
۲: مامقانی ، عبدالله ، تنقیح المقال ، ج ۲، ص ۔
۳: مازندرانی ، مهدی حائری ، معالی السبطین،ج ۱، ص ۴۴۶ ؛ و خوارزمی ، موفق بن احمد ، مقتل خوارزمی، ج ۲، ص۳۰ ۔
Add new comment