قران کریم نے سورہ مائدہ کی 56 ویں ایت کریمہ میں فرمایا : «وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُون ؛ اور جو بھی اللہ ، رسول اور صاحبانِ ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو اللہ کی ہی جماعت غالب آنے والی ہے» ۔ [3]
اس کے باوجود رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اس بات سے بخوبی اگاہ تھے کہ کچھ لوگ اپ کے ولی ، جانشین ، وصی اور خلیفہ کی اطاعت کرنے سے گریز کریں گے ، بہانے لائیں گے ، ایات و روایات میں موجود الفاظ کے معنی کو اپنے حق میں بدل دیں گے ، لفظ «ولی» کو سرپرست اور جانشین کے بجائے «دوست» کے معنی میں استعمال کریں گے ، اسی بنیاد پر خداوند متعال نے انحضرت (ص) کو موظف کیا کہ وہ ایک بار پھر اپنے جانشین ، وصی اور خلیفہ کا اعلان کریں مگر اس بار خصوصی مجمع میں نہیں بلکہ حجاج کے بھرے مجمع میں تاکہ ہر قسم کا شک و شبہہ دور ہوجائے اور سبھی اسے سن سکیں نیز دوسروں تک پہنچا سکیں ۔
اسی بنیاد پر آنحضرت (ص) نے اپنے اخری حج کی واپسی پر غدیر کے میدان میں تمام حاجیوں کو روکا ، جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار اور جو اگے بڑھ گئے تھے انہیں واپس بلایا ، طولانی خطبہ دیا ، ان کے نفسوں پر اپنے اختیار اور مولا ہونے کا اقرار لیا اور پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھوں کو تھام کر کہا :«مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه ؛ میں جس کا مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں ، خدایا جو ان سے محبت کرے تو اس محبت کر اور ان سے دشمنی کرے تو اس کا دشمن رہ » ۔[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[3]. طباطبائی ، محمد حسین ، تفسیرالمیزان، ج6، ص22 ۔
[4] ۔ طبرَسی ، فضل بن حسن ، إعلام الوری بأعلام الهدی، ص 133 ۔
Add new comment