ولایت کے بغیر خیمہ توحید ، مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے ، خدا کی عبادت کرنے والا اگر ولی خدا پر ایمان نہ رکھے ، دشمن خدا سے جنگ کرتے ہوئے مارا جائے تو بھی خدا کا دشمن شمار ہوگا ۔
اسلام اپنے اغاز میں جب بہت ہی کمزور اور کفار و مشرکین کے دباو میں تھا ان حالات میں کوئی بھی مسلمان دین کا پرچم اور علم نہیں اٹھا سکتا تھا ، ان حالات میں تنھا وہ فرد جس نے تبلیغ دین اسلام کے فریضہ کو بخوبی انجام دیا ، اچھی طرح اس ذمہ داری کو نبھایا ، ولایت و امامت کا دفاع کیا وہ حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کی ذات تھی ، اسی بنیاد پر اپ کی ذات اور شخصیت امامت و ولایت کے دفاع کا معیار ہے ، اپ کی ہر تشویش میں الھی رنگ موجود تھا ، اپ ہر لحاظ سے خدا کی مطیع اور فرمانبردار تھیں ۔
اپ اس بات سے بھی بخوبی اگاہ تھیں کہ بغیر امامت اور ولایت کے توحیدی مکتب ، اپنے زمانے کا بدترین مکتب و دین ہوگا لہذا اپ ہمیشہ ولایت کے حق میں عدالت کی فریادیں بلند کرتی رہیں ، اپ نے اس راہ میں بے انتہا سختیاں اور مصبیتں اٹھائیں ، بدن نیلا اور زخمی ہوگیا مگر ولایت اور الھی توحید کی بنیادوں کو سست نہ ہونے دیا جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں ارشاد ہے « وَ بِمُوَالاتِكُمْ تَمَّتِ الْكَلِمَةُ ؛ اور اپ کی ولایت ہی سے وحدانیت کا درخت پھل دار بنا» ۔[1] نیز امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا: فَالرّاغِبُ عَنْكُمْ مارِقٌ وَ اللاّزِمُ لَكُم لاحِقٌ ؛ جس نے اپ سے روگردانی کی وہ دین اسلام سے خارج ہوگیا اور جس نے اپ کی اطاعت کی وہ دین کے اندر رہا» ۔ [2]
دین اسلام فقط و فقط ولایت کے ہمراہ ہی با معنی ہوسکتا ہے ، خداوند متعال بھی ان لوگوں کو ہی دین سجمھنے کی توفیق عطا کرتا ہے جن کا دامن ولی خدا اور وصی رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ولایت سے بھرا ہو جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ کے ایک اور ٹکڑے میں ارشاد ہے «بِمُوالاتِكُمْ عَلّمنا اللّهُ مَعالِمُ دينِنا ؛ ہم نے اپ کی ہی محبت سے خدا اور اس احکام کو پہچانا ہے» ۔ [3]
جن کے دامن ولایت سے خالی ہیں ، نہیں معلوم وہ کس طرح خود کے حق میں ایمان اور خدا کی عبودیت و پرستش کا دعوا کرتے ہیں ؟ اگر کسی نے ولایت کے بغیر عبادت کر بھی لی تو بھی اس کی عبادت کو عبادت کا نام نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ عبادتیں فقط و فقط ولایت ہی سے لائق قدر و قیمت ہوتی ہیں ، جو لوگ بغیر ولایت کے عبادت کرتے ہیں انہیں جزاء کی توقع نہیں رکھنی چاہئے بلکہ اس طرح کی عبادت کا سرانجام خدا کا غضب ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] ۔ من لایحضره الفقیه، ج2، ص 616 ۔
[2] ۔ گذشتہ منبع ، ص 612 ۔
[3] ۔ گذشتہ منبع
Add new comment