امام زمانہ علیہ السلام نے ایک اور خط میں محمد بن عثمان کو جواب میں تحریر فرمایا: كان فيما ورد على الشيخ أبي جعفر محمد بن عثمان العمري قدس الله روحه في جواب مسائلي إلي صاحب الدار عليه السلام وأما ما سألت عنه من أمر من يستحل ما في يدهمن أموالنا ويتصرف فيه تصرفه في ماله من غير أمرنا فمن فعل ذلك فهو ملعون ونحن خصماؤه، فقد قال النبي صلى الله عليه وآله: المستحل من عترتي ما حرم الله ملعون على لساني ولسان كل نبي مجاب، فمن ظلمنا كان من جملة الظالمين لنا، وكانت لعنة الله عليه بقوله عزوجل: ألا لعنة الله على الظالمين ۔ (۱)
اور اس سلسلہ میں جو کچھ تم نے سوال کیا ہے اس انسان کے سلسلہ میں جس کے پاس میرے مال (خمس) میں سے مال اس کے پاس ہے اور اس نے اپنے لئے حلال کر رکھا ہے نیز میری اجازت کے بغیر اسے استعمال کرتا ہے ، جو بھی ایسا کرے وہ ملعون ہے اور ہم اس کے دشمن ہیں، جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو بھی ہم اھلبیت علیہم السلام کے حق کو حلال شمار کیا میری زبان میں اور ہر مستجاب الدعوۃ پیغمبر کی زبان میں ملعون ہوگا ، لہذا جو بھی مجھ پر ستم کرے ستمگروں اور ظالموں میں سے ہوگا اور خدا کی لعنت اس پر ہوگی چونکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ ظالموں اور ستمگروں پر خدا کی لعنت ہے ۔
(إلى أن قال:) یہاں تک امام علیہ السلام نے فرمایا : وأما ما سألت عنه من أمر الضياع التي لناحيتنا هل يجوز القيام بعمارتها وأداء الخراج منها وصرف ما يفضل من دخلها إلى الناحية احتسابا للأجر وتقربا إليكم فلا يحل لأحد أن يتصرف في مال غيره بغير إذنه، فكيف يحل ذلك في مالنا؟! إنه من فعل شيئا من ذلك لغير أمرنا فقد استحل مناما حرم عليه، ومن أكل من مالنا شيئا فإنما يأكل في بطنه نارا وسيصلى سعيرا ۔ (۲)
اور جو کچھ تم نے ہماری زمینوں کے سلسلہ میں دریافت کیا ہے کہ کیا اپر مکانات تعمیر کرنا ، ان کا ٹیکس ادا کرنا ، اس کی آمدنی میں سے جو بچا ہے اس کا حساب و کتاب لینے کے لئے اور اس کی قربت کے لئے خرچ کرنا جائز ہے ؟
انحضرت علیہ السلام نے فرمایا : جو میرے حکم اور میری مرضی کے علاوہ کسی اور راہ میں خرچ کرے اس نے گویا حرام چیز کو خود پر حلال جانا ہے اور جس نے بھی میرے مال میں سے کچھ بھی کھایا ہو اس نے اپنے شکم کو اگ سے بھرا ہے اور وہ جہنم کی اگ میں جلے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شیخ حرعاملی ، وسائل الشیعہ، ج ۶، ص ۳۷۶، ح ۶ ۔
۲: حوالۂ سابق ۔
Add new comment