گذشتہ سے پیوستہ
حضرت زینب سلام الله علیها
اپ کا نام بچپن ہی سے بھائی کے ساتھ جڑا رہا ، بارہا و بارہا دیکھا گیا کہ ان کے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ان دونوں کے لئے انسو بہایا ، مسلسل یہ سنا ہے کہ اپ کی ولادت کے وقت اپ کے والد گرامی امیرالمومنین علی ابن طالب علیہ السلام کے انکھیں اشکبار ہوگئیں ، [1] انہوں نے اپنے ماںجائے کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑا ، جب اپ نے شب عاشور اپنے بھیا کے دہن مبارک سے یہ الفاظ سنے کہ «مَا أَقْرَبَ الْوَعْدَ مِنَ الرَّحِيل» ؛ « دنیا سے کوچ کرنے کے وعدہ سے زیادہ قریب کیا چیز ہے» تو اپنا گربیان چاک کرلیا اور ںڈھال ہوکر گرپڑیں ، ماںجائے کو پکڑ کر کہا «آه! کیسی جاں سوز مصیبت ہے ! اے کاش مجھے اپ سے پہلے ہی موت اگئی ہوتی!» مگر ماںجائے کی گفتگو اور باتوں نے انہیں سکون پہنچایا ۔ [2]
حضرت فاطمہ معصومہ قم علیها السلام
اپ کے بھائی یعنی حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے مدینہ چھوڑنے سے پہلے تمام گھرانے کو اکٹھا کرکے کہا : «أن يبكوا علي حتى أسمع ، ثم فرقت فيهم اثني عشر ألف دينار ثم قلت أما إني لا أرجع إلى عيالي أبدا»[3] مجھ پر انسو بہاو تاکہ میں تم لوگوں کے رونے کی آوازیں سن سکوں کیوں کہ میں اس سفر سے واپس نہ لوٹوں گا ۔
یہ گھڑی حضرت فاطمہ معصومہ قم علیها السلام کے لئے سخت ترین گھڑی تھی جب اپ نے بھیا کے نہ لوٹنے کی خبر سنی کہ یہ دیدار شاید اخری دیدار ہو ۔
اپ کو جس وقت بھیا کا خط موصول ہوا کہ ایران آجائیں تو اپ بغیر جھجھک اور بلا تاخیر خراسان کے لئے روانہ ہوگئیں [4] راستہ سخت اور دشوار تھا مگر بھیا کے دیدار اور اپ سے ملاقات کے شوق نے اپ کی قوت بڑھا دی تھی ، مگر افسوس بھیا سے ملاقات نہ کرسکیں اور قم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہ گئیں اور امام رضا علیہ السلام بھی اپ کے دیدار سے محروم رہ گئے ، مگر حضرت نے ہم شیعوں اور محبوں کو خطاب کرکے فرمایا : «مَنْ زارَها فَلَهُ الْجَنَةُ»؛[5] «جو بھی ان کی [حضرت معصومہ سلام الله علیها] کی زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہے» ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
[1]. سپہر، محمد تقی بن محمد علی، ناسخ التواریخ، ج1، ص45 ۔
[2]. ابن طاووس، على بن موسى، اللهوف على قتلى الطفوف، ص81-82 ۔
[3]. قال لي الرضا علیه السلام إني حيث أرادوا الخروج بي من المدينة جمعت عيالي فأمرتهم أن يبكوا علي حتى أسمع ، ثم فرقت فيهم اثني عشر ألف دينار ثم قلت أما إني لا أرجع إلى عيالي أبدا ؛ مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، ج49، ص117 ۔
[4]. فقيہ محمدی، محمد مهدی، ج6، ص123 ۔
[5]. ابن قولویہ، محمد بن جعفر، ص324 ۔
Add new comment