١۴رمضان المبارک تاریخ کے اس عظیم سورما کی تاریخ شہادت ہے جس نے اپنے حسن تدبیر سے واقعہ کربلا کے مجرمین کو موت کے گھاٹ اتار کےکربلا کی تلخ یادوں میں قدرے تسکین کا سامان فراہم کیا
جناب مختار کی شخصیت اور ان کےکارناموں کوان کی حیات بابرکت سے متعلق کتابوں میں درج کیا گیا ہے آپ کے کارناموں کی عظمت اور انفرادیت کی کیفیت یہ ہے کہ کتابوں کی دنیا میں مختار نامہ کے نام سے ایک مستقل عنوان قائم ہے عام طور پر ایسے عظیم کارناموں کو انجام دینے والوں کی مظلومی یہ ہوتی ہے کہ انکے بہت سے فیصلے اور اقدامات سطحی نظر رکھنے والوں یا بزعم خود بہت مترقی نظر رکھنے والوں کے لئے ابہام کا سبب بن جاتےہیں ایسے موقعہ پر سطحی نظر رکھنے والے تو چاہے اپنی ناسمجھی کااعتراف اور اقرار کرکے خاموش ہوجائیں لیکن مترقی فکر کے زعم میں مبتلا افرادجو ایک طرح سے جہل مرکب کا شکار ہوتے ہیں اپنی لن ترانیوں میں آکر ایسی شخصیات کو مشتبہ بنانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے ظاہر ہے صاحبان ایمان جناب مختار کو نبی یا امام ہرگز نہیں مانتے ہیں اور نہ ہی ان کی عصمت کے قائل ہیں ان میں سے کوئی بھی انھیں رہبر اور رہنما بھی نہیں مانتا کہ ان کے ہر عمل کے بارے میں بحث ضروری ہو کہ وہ کس حد تک صحیح تھا اور کس حد تک غلط صاحبان ایمان کی نظر میں وہ صرف جذبہ عشق اہلبیت نبی علیہم السلام سے سرشار ایک ایسے جوشیلے اور بہادر مرد مومن تھے جن کادل نصرت امام حسین علیہ السلام کےجذبہ سے لبریز تھاواقعہ کربلا کے وقت قید خانہ میں تھےاس لیےواقعہ کربلا کےبعدجب قید سے رہائی ملی تودشمنان امام حسین علیہ السلام سےانتقام کےلیےپورے جوش و ولولے کے ساتھ کھڑے ہوگئے .
اب کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد انتہائی گھٹن کے ماحول میں ابن زیاد جیسے خونخوار اور عیار سے تخت حکومت چھین کر چن چن کے مجرمین کربلا سے انتقام لینا کتنا مشکل امر تھا عصر عاشور کے بعدیزیداور ابن زیاد کے سیاہ کرتوتوں کے نتیجہ میں گھٹن کا جو ماحول بنا تھا اس میں چوتھے امام علیہ السلام کے لیےنسل نبوت اور منصب امامت کی حفاظت کی جوذمہ داری تھی کیا ان حالات میں امام سے انتقام کے لیے قیام کی اجازت لینا وجود امامت کو خطرہ میں ڈالنا نہیں تھا؟
Add new comment