شیخ صدوق نے زید بن علی بن الحسین سے اور ان کے اجداد نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا کہ انحضرت (ص) نے فرمایا : « جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر اس وقت کوئی مسلمان دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی ۔ میں نے انحضرت (ص) سے دریافت کیا کہ وہ کون سے گھڑی ہے ؟ تو انحضرت (ص) نے فرمایا : جس وقت ادھا سورج ڈوب چکا ہو، پھر حضرت زہراء سلام اللہ علیھا نے اپنے غلام کو بلاکر فرمایا کہ گھر کی چھت پر جاو اور جب ادھا سورج ڈوب جائے تو مجھے اطلاع دو تاکہ اس لمحہ دعا کروں » ۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی ایک اور عادت ، شھداء کی قبروں پر جانا تھی ، حضرت (س) نے اپنی اس عادت کو اپنی عمر کے اخری لمحات تک باقی رکھا جیسا کہ شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کتاب «من لایحضره الفقیه» میں تحریر فرماتے ہیں کہ راوندی نے سلمان فارسی سے نقل کیا کہ « حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا چکی چلا کر جو پیس رہی تھیں ، چکیاں چلانے کی وجہ سے اپ کے ہاتھوں کا چھالا پھوٹ گیا تھا اور اس سے خون رس رہا تھا نیز گھر کے ایک گوشہ میں امام حسین علیہ السلام رو رہے تھے ، میں نے عرض کیا کہ فضہ اس کام کو انجام دے دیں گی ! تو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے فرمایا : رسول خدا نے مجھے نصیحت کی ہے کہ ایک دن فضہ گھر کا کام کریں تو ایک دن تم گھر کا کام کرنا ، کل فضہ کے کام کا دن تھا »
«ابن مسعود» کہتے ہیں کہ « ایک مرد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے پاس ایا اور اس نے کہا کہ اے پیغمبر کی بیٹی ! کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپ کے پاس کچھ چھوڑا ہے جس سے میں استفادہ کرسکوں ؟ تو حضرت (س) نے اپنی کنیز کو اواز دیا اور کہا کہ وہ رسالہ لے او ، کنیز نے اسے ڈھونڈا مگر نہیں ملا تو حضرت نے فرمایا : اسے ضرور مل جانا چاہئے وہ رسالہ میرے لئے حسن و حسین علیہما السلام کے برابر ہے ،پھر دوبارہ تلاش کیا تو مل گیا ۔
اس رسالہ میں یوں تحریر تھا کہ وہ مومن نہیں جس سے اس کا پڑوسی امان میں نہ ہو ، جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا ، جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے نیک باتیں کرتا ہے یا خاموش رہتا ہے کہ خداوند متعال صابر ، با ایمان و عفت دار انسان سے محبت کرتا ہے کہ جیسے گالیاں دینے والے اور ضدی مزاج انسان سے نفرت کرتا ہے ۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے فرمایا : حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان بہشت کا حصہ ہے ، گالیاں بد زبانی کا نتیجہ اور بد زبان جہنمی ہے » ۔
Add new comment